Popular Posts

Saturday, August 1, 2015

قربانی کے احکام


اسلام نے سال بھر میں عید کے صرف دو دن مقرر کئے ہیں ایک عید الفطر کا اور دوسرا عید الاضحی کا اور ان کو عبادت قرار دیا جو کہ ہر سال مسلم قوم بڑے جوش جذبے کے ساتھ کرتی ہے۔ عید الاضحی اس وقت منائی جائی ہے جب کہ مسلمانان عالم اسلام ایک عظیم الشان اجتماعی عبادت یعنی حج کی تکمیل کر رہے ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ عبادات کے اختتام اور ابتدا کی خوشی کو ئی دنیوی خوشی نہیں بلکہ دینی خوشی ہے اور اس کے اظہار کا طریقہ بھی دینی ہی ہو نا چاہیے ۔اس لئے عید کے موقع پر مسلمان اللہ کے حضور سربسجود ہو کر شکر بجا لاتے ہیں اور بطور شکر کے عید الفطر کے دن صدقہ اور عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کرتے ہیں ۔تو جب یہ عبادت ہے تو اس کے احکام جاننا بھی ضروری ہوئے تاکہ ہماری محنت اور رقم کہیں ضائع نہ ہو اور شریعت کے احکام کے مطابق ہم اپنی عبادت کو پایۂ تکمیل تک پہنچاسکیں جو کہ ہمارے لیے رضائے خدا وندی کا ذریعہ بنے ۔
قربانی کس پر واجب ہے:
(1) جتنے مال پر صدقہ فطر واجب ہو تا ہے اتنے مال پر بقر عید کے دنوں میں قربانی کرنا بھی واجب ہو تی ہے اور اگر اتنا مال نہ ہو تو اس پر قربانی واجب تو نہیں ہے لیکن اگر پھر بھی کر دے تو بہت ثواب ہے۔
ایک اہم غلط فہمی کا ازالہ:
قربانی کے دنوں میں جانور ذبح کرنے ہی سے قربانی ادا ہو تی ہے جانور کے زندہ صدقہ کرنے یا اس کی قیمت کو خیرات کرنے سے قربانی اد انہیں ہوتی کیونکہ قربانی ایک مستقل عبادت ہے اور صدقہ خیرات علیحدہ ثواب کا کام ہے ۔اور ظاہر ہے کہ ایک عبادت کے ادا کرنے سے دوسری مستقل عبادت ادا نہیں ہوتی اس لئے صدقہ خیرات کر نے سے قربانی بھی ادا نہیں ہوتی۔ جیسے صدقہ یا خیرات کرنے سے حج یا نماز ادا نہیں ہوتے۔
(2) مسافر جو اڑتالیس میل کی مسافت کے ارادہ سے سفر شروع کر چکا ہو اس پر بھی قربانی واجب نہیں۔
(3) اتنا مال جس پر قربانی واجب ہوتی ہے کسی کی ملکیت میں بقر عید کی بارہ تاریخ کے سورج غروب ہو نے سے پہلے ہی آیا ہو تو اس پر بھی قربانی واجب ہے ۔اگر اس نے اتنے مال کے ملکیت میں آنے سے پہلے قربانی کر دی اور پھر بارہ تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے مالدار ہو گیا تو پھر پہلی قربانی ہی کافی ہے ۔اسی طرح کوئی مسافر بارہ تاریخ کو غروب آفتاب سے پہلے گھر آگیا ہو یا کسی جگہ اس نے پندرہ روز کے قیام کا ارادہ کر لیا ہو تو اس پر بھی قربانی واجب ہو جا ئے گی۔
(4) قربانی جس طرح مردوں پر واجب ہوتی ہے اسی طرح اگر کسی عورت کی ملکیت میں اتنا مال ہو جس پر قربانی واجب ہو تی ہے تو عورت پر بھی قربانی واجب ہو گی ۔
(5) جو مسلمان مرد یاعورت اتنے مال کا مالک ہو جس پر قربانی واجب ہو تی ہے جب تک اتنا مال اس کی ملکیت میں رہے گا اس پر ہر سال قربانی واجب ہو گی صرف ایک سال قربانی کر دینا کافی نہیں۔
(6) اگر بھائی مشترک کاروبار کرتے ہوں اور ان کا کھانا پینا اخراجات بھی مشترک ہوں تو جو کچھ مال اس مشترک کاروبار سے حاصل ہو گا اس میں سے اگر ہر بھائی کے حصے میں اگر اتنا مال آتا ہو جس پر قربانی واجب ہو تی ہے تو ہر بھائی کے ذمے الگ الگ قربانی واجب ہو گی ۔ اور اگر اتنے مال سے کم حصے میں آتا ہے تو کسی کے ذمہ بھی واجب نہیں ۔
قربانی کا وقت:
بقر عید کی دسویں سے لے کر بارھویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے تک قربانی کا وقت ہے ان دنوں میں جس وقت چاہے قربانی کرے مگر رات کو ذبح کرنا بہتر نہیں۔ اور سب سے افضل بقر عید کا دن ہے پھر گیارھویں پھر بارھویں تاریخ ہے ۔ شہروں میں بقر عید سے پہلے قربانی کرنا درست نہیں اور دیہات میں دسویں کی صبح صادق کے بعد بھی قربانی کر دینا درست ہے۔ شہر میں اگر کسی نے بقر عید کی نمازسے پہلے قربانی کر دی تو اس کو دوبارہ قربانی کر نا ضروری ہے قربانی کا جانور اگر شہر میں ہے تو پھر چاہے قربانی کرنے والا گاؤں میں ہو نماز عید سے پہلے ذبح کرنا درست نہیں اور اگر قربانی گاؤں میں ہو تو اس کا نماز عید سے پہلے صبح صادق کے بعد ذبح کرنا جائز ہے۔
قربانی کے جانور:
بکری،بکرا،بھیڑ، دنبہ، گائے بیل ،بھینس ،بھینسا، اونٹ اور اونٹنی، صرف ان جانوروں کی قربانی جائز ہے مرغی یا مرغے کو قربانی کی نیت سے ذبح کرنا مکروہ تحریمی ہے ۔
قربانی کی عمر:
بکرا،بکری ایک سال سے کم اور گائے،بیل، بھینس،بھینسا دوسال سے کم اور اونٹ، اونٹنی پانچ سال سے کم عمر کی جائز نہیں ہے اور بھیڑ ،دنبہ چکتی دار ہو یا بغیر چکتی کے ہو اگر ایسا فربہ (صحت مند) کہ سال بھر کا معلوم ہو تا ہو تو چھ ماہ کا بھی جائز ہے اور اگر ایسا فربہ نہیں تو پھر سال بھر سے کم کا جائز نہیں۔
قربانی میں شراکت:
بکری ،بکرا، بھیڑ ،دنبہ، کو صرف ایک شخص کی طرف سے قربان کیا جا سکتا ہے اور گائے ،بیل، بھینس، بھینسا، اونٹ ،اونٹنی میں سات آدمی تک شریک ہو سکتے ہیں اس سے زیادہ شریک نہیں ہو سکتے اور سات سے کم دو چار چھ جتنے بھی ہوں کوئی ہرج نہیں بشرطیکہ کسی کاحصہ ساتویں حصہ سے کم نہ ہو اور سب کی نیت یا تو قربانی کرنے کی ہو اگرچہ ان میں بعض کی نیت واجب قربانی کرنے کی ہو اور بعض کی نفلی۔
قربانی کے عیب:
(1) جس جانور کے پیدائشی سینگ نہ ہوں یا بعد میں ٹوٹ گئے ہوں تو اس کی قربانی جائز ہے اور اگر بالکل جڑ سے ٹوٹ گئے ہو ں تو جا ئز نہیں ۔
(2) جس جانور کے چھوٹے چھوٹے کان ہوں اس کی قربانی جائز ہے اور اگر ایک یا دونوں کان پیدائشی نہ ہو یا ایک کان پورا کٹا ہوا ہو تو جائز نہیں۔
(3) جس جانور کے دونوں کان تھوڑے تھوڑے کٹے ہوئے ہوں یا کان میں کئی سوراخ ہوں جو جمع کرنے سے تہائی سے زیادہ ہو جا تے ہوں تو احتیاط یہ ہے کہ اس جانور کی قربانی نہ کرے اسی طرح کان یا دم تہائی سے زیادہ کٹی ہوئی ہو تو قربانی ناجائز ہے ۔
(4) جو جانور اندھا ہو یا اس کی ایک آنکھ کی بینائی تہائی سے زیادہ جاتی رہے تو اس کی قربانی جائز نہیں اور اگر آنکھ کی نگاہ ترچھی ہو تو قربانی جائز ہے ۔
(5) جس جانور کی ناک کٹی ہو اس کی قربانی جائز نہیں۔
(6) جس جانور کے دانت بالکل نہ ہو اس کی قربانی ناجائز ہے اور اگر اس قدر باقی ہیں کہ گھاس وغیرہ کھا سکتا ہے تو جا ئز ہے۔
(7) جس جانور کی زبان تہائی سے زیادہ کٹی ہو اس کی قربانی جائز نہیں۔
(8) مخنث جانور کی قربانی جائز نہیں ۔
(9) خصی جانور کی قربانی درست بلکہ افضل ہے۔
10)) جس جانور کا پاؤں کٹا ہوا ہو اس کی قربانی جائز نہیں۔
(11) جس جانور کے تھن بالکل کٹے ہوئے ہوں یا ایک تھن تھائی سے زیادہ کٹا ہوا ہو اس کی قربانی جائز نہیں اور اگر بیماری کی وجہ سے بھیڑ بکری کا ایک تھن یا گائے اور بھینس اور اونٹنی کے دو تھن سوکھ گئے ہوں تو قربانی جائز نہیں، یہی حکم ہے اگر تھن کا سر کٹ گیا ہو تو بھی جائز نہیں ۔اور اگر بیماری کے بغیر دودھ سوکھ گیا ہو تو جائز ہے۔
(12) جو جانور ایسا لنگڑا ہو کہ فقط تین پاؤں سے چلتا ہو چوتھا پاؤں زمین پر نہیں رکھ سکتا یا رکھ سکتا ہے مگر اس پر چل نہیں سکتا تو اس کی قربانی جائز نہیں اور اگر چوتھا پاؤں ٹیک کر چل سکتا ہے تو جائز ہے۔ ایسے دبلے کمزور جانور کی قربانی ناجائز ہے جس کی ہڈی میں گودا نہ رہا ہو اگر اتنا کمزور نہ ہو تو جائز ہے۔
(13) مجنون جانور اگر چل پھر کر چر سکے اور جس جانور کو خارش ہو اور موٹا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے اور اگر دونوں اتنے کمزور ہو گئے کہ ان کی ہڈی میں گودا ہی نہ رہا ہو تو پھر جائز نہیں ۔
(14) جو جانور زیادہ عمر ہونے کی وجہ سے بچہ دینے کے قابل نہیں اور جس کو کھانسی ہو اور جس کے بدن پر گرم لوہے سے داغ دیا گیا ہو اور جس کا کان چیراہوا ہو یا اس میں سوراخ ہو بشرطیکہ سوراخ کان کی تہائی سے کم ہو ان کی قربانی جائز ہے ۔
(15) مستحب یہ ہے کہ قربانی کے جانور میں جائز عیبوں میں سے بھی کوئی عیب نہ ہو ۔
(16) اگر قربانی کے جانور کو خریدنے کے بعد کوئی ایسا عیب لگ گیا جس سے قربانی نہیں ہو سکتی تو قربانی کرنے والا اگر غنی ہے جس پر قربانی واجب ہے تو دوسرا جانور خرید کر قربانی کرے اور اگر غریب ہے تو اسی کو ذبح کر دے ۔
(17) اگر خریدتے وقت وہ جانور عیب دار تھا تو غریب کے لئے اسی حالت میں اس کی قربانی جائز ہے اور امیر کے لیے اس وقت جائز ہے جب کہ اس کا عیب جاتا رہے مثلاً پہلے بہت کمزور تھا اور لاغر تھا بعد میں موٹا ہو گیا ۔
مسائل ذبح:
(1) اگر ذبح کرتے وقت گرنے یا تڑپنے سے کوئی ایسا عیب لگ گیا جو قربانی کو مانع ہو تو کوئی حرج نہیں ۔
(2) حاملہ جانور کی قربانی درست ہے البتہ جو جانور بچہ دینے کے قریب ہو اس کو ذبح کرنا مکروہ ہے۔
(3) اگر قربانی کے جانور کا بچہ پیدا ہو جا ئے تو اس بچہ کو زندہ ہی صدقہ کر دینا مستحب ہے اور اگر ذبح کر دیا تو اس کا گوشت نہ کھائے بلکہ صدقہ کر دے اور ذبح کرنے سے اس کی قیمت میں جو زندہ ہونے کی صورت میں تھی اتنی رقم بھی صدقہ کر دے اور اگر گوشت کھا لیا تو اس کی قیمت بھی صدقہ کر دے اور اگر اس بچہ کو اس خیال سے رکھ لیا کہ آئندہ ہ سال قربانی کروں گا تو ناجائز ہے۔
(۴) مستحب ہے قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرے اور اگر خود ذبح نہ کر سکے تو دوسرے کو حکم دے اور خود ذبح کے وقت حاضر رہے۔
فائدہ: اگر وہاں کوئی غیر محرم نہ ہو تو عورت کو بھی اپنی قربانی کے پاس کھڑا ہو نا مستحب ہے ورنہ پردہ ضروری ہے۔
(۵) قربانی کا گوشت اور کھال وغیرہ قصاب کو اجرت میں دینا منع ہے۔
(۶) قربانی کرنے والے نے ذبح کرنے والے کے ساتھ چھری ہاتھ میں پکڑی اب ذبح کرتے وقت ان دونوں میں سے اگر ایک نے بھی دانستہ بسم اللہ چھوڑ دی تو جانور حرام ہو جائے گا۔
مستحب یہ ہے کہ قربانی کے جانور کو قربانی سے پہلے چند دن گھر میں باندھ کہ رکھے اور اس کو جھول پہنائے اور اس کے گلے میں قلادہ یعنی چمڑا وغیرا کا کوئی ٹکڑا لٹکائے اور ذبح کرتے وقت اسے آرام اور نرمی کے ساتھ لٹائے چھری کو پہلے اچھی طرح تیز کرے اور ذبح کے بعد جب جانور اچھی طرح ٹھنڈا ہو جا ئے تو اس کی کھال اتارے اس سے پہلے کھال اتارنا مکروہ ہے۔ اسی طرح جانور کو لٹا کر اس کے سامنے چھری تیز کرنا اور کوئی بے ضرورت تکلیف دینا مکروہ ہے اور روح نکلنے سے پہلے حرام مغز تک چھری پہنچا کر سر الگ کرنا مکروہ ہے۔
(۷) ذبح کرنے والے کو ذبح کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا سنت مؤکدہ ہے اس کا ترک بغیر عذر کے مکروہ ہے۔
(۸) مرتد، زندیق، رافضی اورقادیانی کاذبیحہ حرام ہے ۔ان سے ذبحہ نہ کرائیں نہ قربانی کے موقع پر نہ کسی اور وقت۔
قربانی کا گوشت اور کھال :
قربانی کے گوشت کا خود کھانا اور رشتہ داروں اور مالداروں میں تقسیم کرنا اور فقیروں محتاجوں کو خیرات کرنا سب جائز ہے،بہتر یہ ہے کہ تہائی گوشت سے کم خیرات نہ کرے لیکن اگر کسی نے تہائی سے کم خیرات کیا تو بھی کوئی گناہ نہیں۔ البتہ منت اور نذر کی قربانی کا سب گوشت خیرات کر نا ضروری ہے اس میں سے نہ خود کھا سکتا ہے نہ امیروں کو دے سکتا ہے۔
قربانی کا گوشت بیچنا مکروہ ہے اس طرح سری پائے اور اس کی چربی کا بیچنا حلال نہیں اگر کسی نے ان چیزوں کو بیچ دیا تو ان کی قیمت صدقہ کرے۔قربانی کی کھال کا بعینہ ڈول ،مصلی وغیرہ بنا کر خود استعمال کرنا بھی جائز ہے اور کسی امیر کو دے دینا بھی جائز ہے اور اگر اس کھال کو ایسی چیز سے تعبیر کر لیاکہ بعینہ اس چیز کے وجود سے کچھ مدت تک نفع حاصل ہو سکتا ہے جیسے مشک ۔چھلنی۔ جائے نماز، کپڑا وغیرا تو یہ بھی جائز ہے لیکن اگر کسی ایسی چیز کے ساتھ تبدیل کر دیا جس کے وجود سے بعینہ نفع حاصل نہیں ہو سکتا یا اس کو روپے پیسے کے ساتھ فروخت کر دیا تو اب اس کی قیمت کو خود استعمال نہیں کر سکتا نہ کسی امیرکو دے سکتا ہے بلکہ اس کو صدقہ کر دیا جا ئے۔
فائدہ: مدارس اسلامیہ کے طلبہ اس صدقہ کے بہترین مصرف ہیں اس میں صدقے کا ثواب بھی ہے اور علم دین کے احیاء کا بھی۔ مگر کسی خدمت اور معاوضہ میں دینا اس کا جائز نہیں اسی طرح قربانی کے جانور کی رسی وغیرہ سب صدقہ کر دے۔
تنبیہ:
بعض لوگ چرم قربانی کی قیمت بیوہ عورتوں کو دے دیتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ اس کے پاس سونا چاندی کا زیور یا نقدی تو بقدر نصاب نہیں ہے ۔اس طرح یہ بھی دستور ہے کہ اس کی قیمت کو بہنوں وغیرہ کا حق سمجھا جا تا ہے اور مالدار بہنوں بیٹیوں کو بھی دے دیتے ہیں یہ درست نہیں البتہ بیوہ عورت یا بہن اگر غریب ہو تو اس کو دے سکتے ہیں۔
قربانی کی قضائ:
( 1) اگر کسی شخص نے پچھلے سالوں کی واجب قربانی ادا نہ کی ہو تو اس کو ہر سال کی قربانی کے عوض قربانی کی قیمت کا صدقہ میں دینا واجب ہے ۔قربانی کے ایام گزرنے کے بعد قربانی نہیں کر سکتا۔
(2) اگر کوئی شخص قربانی کے دنوں میں مالدار تھا لیکن اس نے قربانی نہیں کی پھر ان دنوں کے گزرنے کے بعد وہ شخص غریب ہو گیا اب اگر اس نے قربانی کا جانور خریدا تھا تو اس کو صدقہ کر دے ورنہ اتنی رقم خیرات کرے جس سے قربانی ہو سکتی ہے۔
(3)اگر کوئی شخص مالدار ہو اور اس نے قربانی نہ کی ہو اور نہ ہی قربانی کے دن گزرنے کے بعد اتنی رقم قربانی کے عوض خیرات کی ہو جس سے قربانی ہو سکتی ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ وصیت کرے کہ اس کی طرف سے اس کا وارث قربانی کی قیمت صدقہ کرے۔
(4) اگر قربانی کے لئے جانور خریدا اور قربانی کے دنوں میں ذبح نہ کیا تو اب اس قربانی کی قضاء کے ارادہ سے اس کو آئندہ سال ذبح کرنا جائز نہیں بلکہ اس جانور کو زندہ صدقہ کرناواجب ہے۔ اگر ذبح کر لیا تو اس کا گوشت کھانا اس کے لیے جائز نہیں بلکہ ذبح کرنے سے جانور کی قیمت میں جو نقصان ہوا وہ رقم اور اس کا تمام گوشت پوست خیرات کر دے۔
عشرہ ذوالحجہ کے متفرق مسائل:
(1) جو آدمی قربانی کا ارداہ رکھتاہو اس کے لئے مستحب ہے کہ وہ ذوالحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد بال، ناخن کٹانے اور حجامت بنوانے سے دسویں ذوالحجہ تک رُکا رہے ۔
(2) بقر عید کی پہلی تاریخ سے لے کر نو تاریخ تک ہر دن کا روزہ رکھنا ایک ایک دن کا روزہ ثواب میں سال بھر کے روزوں کے برابر ہے ۔ نویں تاریخ یعنی عرفہ کے دن کا روزہ ثواب میں دو سال کے روزوں کے برابر ہے پھر دسویں سے لے کے تیرھویں تاریخ تک روزہ رکھنا حرام ہے۔
تکبیر تشریق :
تکبیر تشریق ناویں ذوالحجہ کی نماز فجر کے بعد تیرہویں تاریخ کی عصر کے نماز کے بعد تک ہر فرض عین نماز کا سلام پھیرتے ہی ایک مرتبہ بلند آواز سے کہنا واجب ہے البتہ عورتیں آہستہ آہستہ آواز میں کہیں۔
تنبیہ: بہت سے لوگ غفلت کرتے ہیں اس تکبیر کو پڑھتے نہیں یا آہستہ پڑھ لیتے ہیں حالانکہ ان کا درمیانہ طریقہ میں بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے ۔
فائدہ: ذوالحجہ کی گیارویں،باہرویں ،تیرہویں ، تاریخ کو ایام تشریق کہتے ہیں تکبیرات تشریق یہ ہیں :
اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر،اللہ اکبر وللہ الحمد
1)) نماز جنازہ اور وتروں اور سنتوں کے بعد یہ تکبیرات نہ کہیں۔
2)) تکبیر ات تشریق امام، مقتدی، منفرد ،عورت، مرد، مسافر، مقیم، شہر والوں اور دیہات والوں سب پر واجب ہے ۔
((3 جن دنوں میں یہ تکبیر ات کہی جاتی ہیں اگر ان دنوں کی کوئی نماز رہ گئی ہو اور اب اگر اس کی قضاء اسی سال کے انہی دنوں میں کی جائے تب تو یہ تکبیرات کہی جائیں گی ورنہ نہیں مثلاً: نویں تاریخ کی نماز کی قضاء اسی سال کی دسویں کو کی جائے تو تکبیر بھی نماز کے بعد کہی جائے اور اگر اس کی قضاء ان دنوں کے گزرنے کے بعد یا اگلے سال کے انہی دنوں میں کی جائے اسی طرح ان دنوںسے پہلے کی نماز اگر ان دنوں میں پڑھے تو یہ تکبیرات نہ پڑھے۔
4)) مسبوق یعنی جس کی رکعات رہ گئی ہووہ بھی اپنی رکعات پوری کرنے کے بعد یہ تکبیر کہے گا۔ لیکن اگر بھول کر امام کے ساتھ ہی تکبیر تشریق کہہ لی تو بھی نماز ہو گئی اور لاحق جس کی رکعت امام کی اقتداء کرنے کے بعد رہ گئی ہو اس پر بھی یہ تکبیر واجب ہے۔
((5 نماز کا سلام پھیرنے کے بعد جب تک قبلہ سے سینہ نہ پھیرا ہو اور نہ کوئی ایسا کام کیا ہو جس سے نماز کی بنا ممنوع ہو جا تی ہے اس وقت تک یہ تکبیر کہنا ضروری ہے۔
(6) نماز کے سلام کے بعد اگر کسی نے قہقہہ لگا دیا یا عمداً حدث کیا یا کلام کیا تو اب یہ تکبیرات نہیں کہہ سکتا البتہ اگر سلام کے بعد خود بخود حدث ہو گیا تو یہ تکبیرات کہہ لے کیونکہ ان کے لیے وضو شرط نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان مقدس فرائض کی ادائیگی مکمل حقوق کی رعایت کے ساتھ کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment