مسئلہ:قربانی
کاوقت دسویں ذوالحجہ کے دن طلوع فجر کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور بارھویں
ذوالحجہ کے دن غروب سے پہلے پہلے تک باقی رہتا ہے ، لیکن شہر اور بڑے دیہات
والوں کو عید کی نماز سے پہلے ذبح کرنا جائزنہیں ہے۔ حوالہ
عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ
سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ فَقَالَ
إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ مِنْ يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ ثُمَّ
نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ فَمَنْ فَعَلَ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا (بخاري بَاب
سُنَّةِ الْعِيدَيْنِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ ۸۹۸) عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ الْأَضْحَى يَوْمَانِ بَعْدَ يَوْمِ الْأَضْحَى (موطا
مالك بَاب الضَّحِيَّةِ عَمَّا فِي بَطْنِ الْمَرْأَةِ وَذِكْرِ أَيَّامِ
الْأَضْحَى ۹۲۳) عن جُنْدَبَ بْن سُفْيَانَ الْبَجَلِيَّ قَالَ شَهِدْتُ
النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ فَقَالَ
مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُعِدْ مَكَانَهَا أُخْرَى وَمَنْ
لَمْ يَذْبَحْ فَلْيَذْبَحْ (بخاري بَاب مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاةِ
أَعَادَ ۵۱۳۶)عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ ضَحَّى خَالِي أَبُو بُرْدَةَ قَبْلَ
الصَّلَاةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
تِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ عِنْدِي جَذَعَةً
مِنْ الْمَعْزِ فَقَالَ ضَحِّ بِهَا وَلَا تَصْلُحُ لِغَيْرِكَ ثُمَّ قَالَ
مَنْ ضَحَّى قَبْلَ الصَّلَاةِ فَإِنَّمَا ذَبَحَ لِنَفْسِهِ وَمَنْ
ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلَاةِ فَقَدْ تَمَّ نُسُكُهُ وَأَصَابَ
سُنَّةَالمسلمین(مسلم، بَاب وَقْتِهَا ۳۶۲۴)
مسئلہ:چھوٹے گاؤں والوں کے لئے جہاں عید کی نماز واجب نہیں ہوتی،طلوع فجر کے بعد قربانی کا ذبح کرنا جائز ہے۔ حوالہ
عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ الْأَضْحَى يَوْمَانِ بَعْدَ يَوْمِ الْأَضْحَى(موطا مالك بَاب الضَّحِيَّةِ عَمَّا فِي بَطْنِ الْمَرْأَةِ وَذِكْرِ أَيَّامِ الْأَضْحَى ۹۲۳)
مسئلہ:قربانی کے دنوں میں سے پہلے دن قربانی کا ذبح کرناافضل ہے، پھر دوسرے دن، پھر تیسرے دن۔ حوالہ
عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ،
وَابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُمْ قَالُوا:أَيَّامُ النَّحْرِ ثَلَاثَةٌ،
أَفْضَلُهَا أَوَّلُهَا (نصب الراية كِتَابُ الْأُضْحِيَّةِ ۲۱۳/۴)
مسئلہ:قربانی
کو بذات خود ذبح کرنا مستحب ہے جبکہ وہ اچھی طرح ذبح کرسکتا ہو، ہاں! اگر
وہ اچھی طرح ذبح نہ کرسکتا ہوتو بہتر یہ ہے کہ کسی سے مدد لے اس کو چاہئے
کہ ذبح کے وقت موجود رہے ۔ حوالہ
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْكَفَأَ إِلَى كَبْشَيْنِ
أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ فَذَبَحَهُمَا بِيَدِهِ (بخاري بَاب فِي
أُضْحِيَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ
أَقْرَنَيْنِ ۵۱۲۸)ٌ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ
اللَّهِ صلى الله عليه وسلم :« يَا فَاطِمَةُ قَوْمِى فَاشْهَدِى
أُضْحِيَتَكِ فَإِنَّهُ يُغْفَرُ لَكِ بِأَوَّلِ قَطْرَةٍ تَقْطُرُ مِنْ
دَمِهَا كُلُّ ذَنْبٍ عَمِلْتِيهِ وَقُولِى إِنَّ صَلاَتِى وَنُسُكِى
وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِى لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لاَ شَرِيكَ لَهُ
وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ المسلمین». قِيلَ :يَا رَسُولَ اللَّهِ
هَذَا لَكَ وَلأَهْلِ بَيْتِكَ خَاصَّةً فَأَهْلُ ذَلِكَ أَنْتُمْ أَمْ
لِلْمسلمينَ عَامَّةً قَالَ :بَلْ لِلْمسلمينَ عَامَّةً (السنن الكبري
للبيهقي باب مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ ذَبْحِ صَاحِبِ النَّسِيكَةِ نَسِيكَتَهُ
بِيَدِهِ وَجَوَازُ الاِسْتِنَابَةِ فِيهِ الخ ۱۰۵۲۴)
مسئلہ: قربانی
کا دن میں ذبح کرنا مستحب ہے، لیکن اگر اسے رات میں ذبح کرے تو کراہت کے
ساتھ جائز ہے۔ لیکن اس کراہت کی اصل وجہ یہ ہے کہ رات سکون اور راحت حاصل
کرنے کا وقت ہے اور اس کی وجہ سے راحت میں خلل پڑھ سکتا ہے اور دوسری بات
یہ ہے کہ رات کی تاریکی کی وجہ سے ذابح وغیرہ کے ہاتھ وغیرہ کٹنے کا خدشہ
ہوتا ہے، تیسری اہم بات یہ ہے کہ ذبح میں جن رگوں کا کٹنا ضروری ہوتا ہے،
رات کی تاریکی کی وجہ سے یہ ظاہر نہیں ہوپاتا کہ ذبح صحیح ہوا یانہیں؛ رگیں
مکمل کٹی یانہیں؛ لہٰذا اگریہ وجوہات نہ پائی جائیں توپھرکراہت باقی نہ
رہے گی۔ حوالہ
عن ابن عباس :أن النبي صلى الله عليه و سلم نهى أن يضحى ليلا (المعجم
الكبير أحاديث عبد الله بن العباس بن عبد المطلب بن هاشم ۱۱۴۵۸) وَأَمَّا
مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ الذَّكَاةِ وَمَا يُكْرَهُ مِنْهَا ( فَمِنْهَا )
أَنَّ الْمُسْتَحَبَّ أَنْ يَكُونَ الذَّبْحُ بِالنَّهَارِ وَيُكْرَهُ
بِاللَّيْلِ وَالْأَصْلُ فِيهِ مَا رُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ { أَنَّهُ نَهَى عَنْ الْأَضْحَى لَيْلًا
وَعَنْ الْحَصَادِ لَيْلًا } وَهُوَ كَرَاهَةُ تَنْزِيهٍ وَمَعْنَى
الْكَرَاهَةِ يَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ لِوُجُوهٍ : أَحَدُهَا أَنَّ
اللَّيْلَ وَقْتُ أَمْنٍ وَسُكُونٍ وَرَاحَةٍ فَإِيصَالُ الْأَلَمِ فِي
وَقْتِ الرَّاحَةِ يَكُونُ أَشَدَّ ، وَالثَّانِي أَنَّهُ لَا يَأْمَنُ
مِنْ أَنْ يُخْطِئَ فَيَقْطَعُ يَدَهُ وَلِهَذَا كُرِهَ الْحَصَادُ
بِاللَّيْلِ ، وَالثَّالِثُ أَنَّ الْعُرُوقَ الْمَشْرُوطَةَ فِي الذَّبْحِ
لَا تَتَبَيَّنُ فِي اللَّيْلِ فَرُبَّمَا لَا يَسْتَوْفِي قَطْعَهَا
(بدائع الصنائع فصل في بَيَان شَرْطِ حِلِّ الْأَكْلِ فِي الْحَيَوَانِ
الْمَأْكُولِ: ۲۳۶/۱۰)۔
مسئلہ:اگر کسی وجہ سے عید کی نماز چھوٹ جائے تو زوال کے بعد قربانی کے جانور کا ذبح کرنا جائز ہے۔ حوالہ
عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ الْأَضْحَى يَوْمَانِ بَعْدَ يَوْمِ الْأَضْحَى(موطا مالك بَاب الضَّحِيَّةِ عَمَّا فِي بَطْنِ الْمَرْأَةِ وَذِكْرِ أَيَّامِ الْأَضْحَى ۹۲۳)
مسئلہ:اگر شہر میں کئی جگہ عید کی نماز کی جماعتیں ہوتی ہو ں تو شہر میں پڑھی جانے والی پہلی نماز کے بعد ذبح کرنا جائز ہے۔ حوالہ
عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ ضَحَّى خَالِي أَبُو بُرْدَةَ قَبْلَ الصَّلَاةِ
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ شَاةُ
لَحْمٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ عِنْدِي جَذَعَةً مِنْ الْمَعْزِ
فَقَالَ ضَحِّ بِهَا وَلَا تَصْلُحُ لِغَيْرِكَ ثُمَّ قَالَ مَنْ ضَحَّى
قَبْلَ الصَّلَاةِ فَإِنَّمَا ذَبَحَ لِنَفْسِهِ وَمَنْ ذَبَحَ بَعْدَ
الصَّلَاةِ فَقَدْ تَمَّ نُسُكُهُ وَأَصَابَ سُنَّةَالمسلمین(مسلم، بَاب
وَقْتِهَا ۳۶۲۴) ۔
قربانی کا وقت شہر والوں کے لئے نماز عید ادا کرنے کے بعد اور دیہات والوں کے لیے (جن پر نماز جمعہ فرض نہیں ہے )صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے لیکن سورج طلوع ہونے کے بعد کرنابہتر ہے۔
(فتاویٰ عالمگیری ج5 ص364، فتاویٰ شامی ج9 ص528، موطا امام محمدص282باب الرجل یذبح اضحیتہ )
أَنَّ عُوَيْمِرَ بْنَ أَشْقَرَ ، "
ذَبَحَ أُضْحِيَتَهُ قَبْلَ أَنْ يَغْدُوَ يَوْمَ الأَضْحَى ، وَأَنَّهُ
ذَكَرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ،
فَأَمَرَهُ أَنْ يَعُودَ بِأُضْحِيَةٍ أُخْرَى۔
[موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني » كِتَابُ الضَّحَايَا وَمَا يُجْزِئُ مِنْهَا » بَابُ : الرَّجُلِ يَذْبَحُ أُضْحِيَتَهُ قَبْلَ أَنْ ... رقم الحديث: 576]
[موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني » كِتَابُ الضَّحَايَا وَمَا يُجْزِئُ مِنْهَا » بَابُ : الرَّجُلِ يَذْبَحُ أُضْحِيَتَهُ قَبْلَ أَنْ ... رقم الحديث: 576]
ترجمہ: حضرت عویمر بن اشقر رضی اللہ عنہ نے عید الاضحیٰ کے دن صبح سے پہلے اپنی قربانی کرلی اس بات کا ذکر رسول اللہ ﷺ کے سامنے کیا تو آپﷺ نے حکم دیا کہ دوسری قربانی کرو! (موطا امام محمد ص282باب الرجل یذبح اضحیتہ، موطا امام مالک ص495)
تخريج الحديث
|
قربانی کے واجب ہونے کی چار شرطیں ہیں:
(1) مسلمان ہونا: کافر پر قربانی واجب نہیں ہے۔ حوالہ
(2) آزاد ہونا: غلام پر قربانی واجب نہیں۔ حوالہ
(3) مقیم ہونا: مسافر پر قربانی واجب نہیں ہے۔ حوالہ
(4) مال دار ہونا: فقیر پر قربانی واجب نہیں ہے۔ حوالہ
مِنْهَا الْإِسْلَامُ فَلَا تَجِبُ عَلَى الْكَافِرِ لِأَنَّهَا قُرْبَةٌ
وَالْكَافِرُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِ الْقُرَبِ (بدائع الصنائع فَصْل فِي
شَرَائِطِ وُجُوبِ فِي الْأُضْحِيَّةَ: ۲۵۰/۱۰)عن أَنَس أَنَّ أَبَا
بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَتَبَ لَهُ هَذَا الْكِتَابَ لَمَّا
وَجَّهَهُ إِلَى الْبَحْرَيْنِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
هَذِهِ فَرِيضَةُ الصَّدَقَةِ الَّتِي فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمسلمينَ (بخاري بَاب زَكَاةِ
الْغَنَمِ ۱۳۶۲)۔
وَمِنْهَا الْحُرِّيَّةُ فَلَا تَجِبُ عَلَى الْعَبْدِ وَإِنْ كَانَ
مَأْذُونًا فِي التِّجَارَةِ أَوْ مُكَاتَبًا ؛ لِأَنَّهُ حَقٌّ مَالِيٌّ
مُتَعَلِّقٌ بِمِلْكِ الْمَالِ وَلِهَذَا لَا تَجِبُ عَلَيْهِ زَكَاةٌ
وَلَا صَدَقَةُ الْفِطْرِ (بدائع الصنائع فَصْل فِي شَرَائِطِ وُجُوبِ فِي
الْأُضْحِيَّةَ: ۲۵۱/۱۰)عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ :لَيْسَ فِي مَالِ
الْعَبْدِ زَكَاةٌ. (مصنف ابن ابي شيبة فِي مَالِ الْعَبْدِ ، مَنْ قَالَ
لَيْسَ فِيهِ زَكَاةٌ ۱۶۱/۳)
عن إبراهيم قال رخص للحاج والمسافر في أن لا يضحي (مصنف عبد الرزاق باب الضحايا ۳۸۲/۴)
مسافر پر قربانی واجب نہیں:
عَنْ عَلِیٍّ قَالَ لَیْسَ عَلَی الْمُسَافَرِ اُضْحِیَۃٌ۔(محلیٰ بالآثار ج6 ص37 کتاب الاضاحی )
[نصب الراية (الزيلعي) - الصفحة أو الرقم: 4/211]
[نصب الراية (الزيلعي) - الصفحة أو الرقم: 4/211]
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مسافر پر قربانی (واجب)نہیں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ
رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ كَانَ لَهُ
سَعَةٌ وَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا(ابن ماجه بَاب
الْأَضَاحِيِّ وَاجِبَةٌ هِيَ أَمْ لَا ۳۱۱۴)
مسئلہ: قربانی
کے واجب ہونے کے لئے نصاب پر مکمل سال کا گذرنا شرط نہیں ہے؛ بلکہ قربانی
اس وقت واجب ہوتی ہے جبکہ مسلمان عیدالاضحی کے دن اپنی ضروریات اصلیہ کے
علاوہ مقدار نصاب کا مالک ہو۔ حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ وَجَدَ سَعَةً فَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ
مُصَلَّانَا (مسند احمد مسند أبي هريرة رضي الله عنه ۸۲۵۶)مذکورہ
حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی گنجائش رکھتے ہوئے
قربانی نہ کرنے والے پرغصہ ہوئے اور اس میں حولانِ حول کا کوئی تذکرہ نہ
فرمایا؛ اسی وجہ سے فقہاء کرام اس کی شرط نہیں لگاتے ہیں۔ (
فَتَجِبُ ) التَّضْحِيَةُ : أَيْ إرَاقَةُ الدَّمِ مِنْ النَّعَمِ عَمَلًا
لَا اعْتِقَادًا بِقُدْرَةٍ مُمْكِنَةٍ هِيَ مَا يَجِبُ بِمُجَرَّدِ
التَّمَكُّنِ مِنْ الْفِعْلِ ؛ فَلَا يُشْتَرَطُ بَقَاؤُهَا لِبَقَاءِ
الْوُجُوبِ لِأَنَّهَا شَرْطٌ مَحْضٌ لَا مُيَسَّرَةٌ ، هِيَ مَا يَجِبُ
بَعْدَ التَّمَكُّنِ بِصِفَةِ الْيُسْر (رد المحتار كِتَابُ
الْأُضْحِيَّةَ:۲۱۴/۲۶)۔
قربانی کے تین دن ہیں:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ اَلْاَیَّامُ الْمَعْلُوْمَات … فَالْمَعْلُوْمَاتُ یَوْمُ النَّحْرِ وَیَوْمَانِ بَعْدَہٗ
(تفسیر ابن ابی حاتم رازی ج6 ص261)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی
اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:’’ ایام معلومات۔چنانچہ ایام معلوم یوم نحر
(دسویں ذی الحجہ)اور اس کے بعد دو دن (11،12ذی الحجہ) ہیں۔‘‘
عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، قَالَ : " الأَضْحَى يَوْمَانِ بَعْدَ يَوْمِ الأَضْحَى " . وحَدَّثَنِي ، عَنْ مَالِكٍ ، أَنَّهُ بَلَغَهُ ، عَنْ عَلِيِّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ، مِثْلُ ذَلِكَ .
[موطأ مالك رواية يحيى الليثي » كِتَابُ الضَّحَايَا » بَابُ الضَّحِيَّةِ عَمَّا فِي بَطْنِ المَرْأَةِ ، ... رقم الحديث: 1020، السنن الكبرى للبيهقي » كِتَابُ الضَّحَايَا » بَابُ مَنْ قَالَ الْأَضْحَى يَوْمُ النَّحْرِ وَيَوْمَيْنِ ... رقم الحديث: 17718]
حضرت
حضرت عبدالله بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ : "قربانی دو دن بعد (بھی) ہے
قربانی والے دن کے"، امام مالک رح فرماتے ہیں کہ بیشک اس جیسا قول حضرت علی
بن ابی طالب (رض) سے بھی پہنچا ہے، کہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) کہتے تھے
:"قربانی دو دن بعد (بھی) ہے قربانی والے دن کے".
وَمَا قَدْ حَدَّثَنَا وَمَا قَدْ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَنَّ مَالِكًا ، حَدَّثَهُ عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : " النَّحْرُ يَوْمَانِ بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ " .[أحكام القرآن الكريم للطحاوي » كِتَابُ الْحَجُّ وَالْمَنَاسِكَ » تأويل قَوْلِهِ تَعَالَى : /30 وَاذْكُرُوا اللَّهَ ... رقم الحديث: 1165]
حضرت عبدالله بن عمر
رض (سورة البقرة آية 203 کی تفسیر) فرماتے ہیں کہ "ایام_معلومات؛ یوم
النحر (دسویں ذی الحجہ) اور اس کے بعد کے دو (11، 12 ذی الحجہ) دن ہیں.عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ : " النَّحْرُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ " .
ترجمہ: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’کہ قربانی تین دن ہے۔‘‘
3) عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ اَلذَّبْحُ بَعْدَ النَّحْرِ یَوْمَانِ۔
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’قربانی(دسویں ذی الحجہ یعنی عید کے دن کے) بعدصرف دو دن ہے ۔‘‘
عَنْ أَنَسٍ , قَالَ : " الذَّبْحُ بَعْدَ النَّحْرِ يَوْمَيْنِ " .
[أمالي ابن بشران » الْمَجْلِسُ السِّتُّونَ وَالسِّتُّ مِائَةِ فِي ذِي ... رقم الحديث: 440
أمالي ابن بشران 6 » الْمَجْلِسُ السَّادِسُ وَالسِّتُّونَ وَالسِّتُّ مِائَةٍ ... رقم الحديث: 53
أمالي ابن بشران ( مجالس أخرى ) » الذبح بعد النحر يومين ... رقم الحديث: 424]
عَنْ أَنَسٍ , قَالَ : " الذَّبْحُ بَعْدَ النَّحْرِ يَوْمَيْنِ " .
[أمالي ابن بشران » الْمَجْلِسُ السِّتُّونَ وَالسِّتُّ مِائَةِ فِي ذِي ... رقم الحديث: 440
أمالي ابن بشران 6 » الْمَجْلِسُ السَّادِسُ وَالسِّتُّونَ وَالسِّتُّ مِائَةٍ ... رقم الحديث: 53
أمالي ابن بشران ( مجالس أخرى ) » الذبح بعد النحر يومين ... رقم الحديث: 424]
4) عن ابن عبَّاسٍ رضي اللَّهُ تعالى عنهُما قال الأضحَى يومانِ بعدَ يومِ النَّحرِ.
[عمدة القاري (العيني) - الصفحة أو الرقم: 21/220 - خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد]
جناب زبیر علی زئی(غیر مقلد) لکھتے ہیں:’’ قول راجح میں قربانی تین ہیں۔‘‘
( مقالات علی زئی ج2 ص219 الحدیث44 ص6تا11)
نیز لکھتے ہیں: ’’سیدنا علی
المرتضیٰ(رضی اللہ عنہ )اور جمہور صحابہ کرام(رضی اللہ عنہم ) کا یہی قول
ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں ایک عید الاضحی اور دو دن بعد میں تو ہماری
تحقیق میں راجح ہے اور امام مالک (رحمہ اللہ) نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے ۔
‘‘
(فتاوی علی زئی ج2 ص181)
(فتاوی علی زئی ج2 ص181)
مولوی عمر فاروق غیرمقلد لکھتے ہیں:’’ تین دن قربانی کے قائلین کا مذہب راجح اور قرین صواب ہے۔‘‘
(قربانی اور عقیقہ کے مسائل ص 137)
أَيَّامُ التَّشْرِيقِ كُلُّهَا ذَبْحٌ
(يعني تشریق کے سارے دن قربانی کے ہیں) یہ روایت موضوع (منگھڑت) اور کذب (جھوٹی) ہے.
عید کے چوتھے دن قربانی کرنا سنت سے ثابت نہیں:
مولوی محمد فاروق( غیر مقلد) لکھتے ہیں
بعض لوگ قصداً قربانی میں تاخیر کر
کے تیرہ ذوالحجہ کو ذبح کرتے ہیں اور تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ چونکہ یہ دن
بھی ایام قربانی میں شامل ہے اور اس دن لوگوں نے قربانی ترک کر دی ہے لہٰذا
ہم یہ عمل سنت متروکہ کہ احیاء کی خاطر کرتے ہیں لیکن چوتھے دن قربانی
کرنا سنت سے ثابت ہی نہیں تو متروکہ سنت کیسے ہوئی ؟بلکہ ایام قربانی تین
دن (10،11،12 ذوالحجہ) ہیں ، تیرہ ذوالحجہ کا دن ایام قربانی میں شامل ہی
نہیں۔
( قربانی اور عقیقہ کے مسائل ص141)
قربانی کا نصاب:
ہر اس شخص پر قربانی واجب ہے جس پر صدقۃ الفطر واجب ہے۔
(فتاوی عالمگیری ج5ص360)
ذبح کون کرے؟
قربانی کے جانور کو مسلمان ذبح کرے گا۔
(فتاوی شامی ج9 ص474)
No comments:
Post a Comment