Popular Posts

Thursday, June 4, 2015

Grow Your Brand With Simple Sharing and Following Tools | AddThis

Grow Your Brand With Simple Sharing and Following Tools | AddThis

رفع یدین نہ کرنے کے دلائل

رفع یدین نہ کرنے کے دلائل 
:دلیل نمبر1
قَالَ اللہُ تَعَالیٰ: قَدْاَفْلَحَ الْمُؤمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلٰوتِھِمْ خَاشِعُوْنَ
(سورۃ مومنون:1،2)
ترجمہ: پکی بات ہے کہ وہ مومن کامیاب ہوگئے جو نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں۔
تفسیر: قَالَ اِبْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا مُخْبِتُوْنَ مُتَوَاضِعُوْنَ لَایَلْتَفِتُوْنَ یَمِیْناً وَّلَا شِمَالاً وَّ لَا یَرْفَعُوْنَ اَیْدِیَھُمْ فِی الصَّلٰوۃِ…الخ
(تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہما :ص212)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’خشوع کرنے والے سے مراد وہ لوگ ہیں جونماز میں تواضع اورعاجزی اختیار کرتے ہیں اوروہ دائیں بائیں توجہ نہیں کرتے ہیں اورنہ ہی نماز میں رفع یدین کرتے ہیں۔‘‘
:دلیل نمبر2
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَحْمَدُبْنُ شُعَیْبِ النَّسَائِیُّ اَخْبَرَ نَا سُوَیْدُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ الْاَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَۃَ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ اَلَااُخْبِرُکُمْ بِصَلٰوۃِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ؛ فَقَامَ فَرَفَعَ یَدَیْہِ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ثُمَّ لَمْ یُعِدْ۔
(سنن النسائی ج1ص158،سنن ابی دائود ج1ص116 )
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’کیامیں تمہیں اس بات کی خبر نہ دوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے نماز پڑھتے تھے ؟حضرت علقمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے پہلی مرتبہ رفع یدین کیا(یعنی تکبیر تحریمہ کے وقت) پھر(پوری نمازمیں)رفع یدین نہیں کیا۔‘‘
:دلیل نمبر3
اَ لْاِمَامُ الْحَافِظُ اَبُوْحَنِیْفَۃَ نُعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ یَقُوْلُ سَمِعْتُ الشَّعْبِیَّ یَقُوْلُ سَمِعْتُ الْبَرَائَ بْنَ عَازِبٍ یَقُوْلُ؛کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَاافْتَتَحَ الصَّلَاۃَ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی یُحَاذِیَ مَنْکَبَیْہِ لَایَعُوْدُ بِرَفْعِھِمَا حَتّٰی یُسَلِّمَ مِنْ صَلَا تِہٖ۔
(مسند ابی حنیفہ بروا یۃ ابی نعیم رحمہ اللہ ص344،سنن ابی دائود؛ ج 1 ص 116 )
ترجمہ: حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے،(اس کے بعد پوری نماز میں) سلام پھیرنے تک دوبارہ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔‘‘
:دلیل نمبر4
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْبَکْرٍ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِالْحُمَیْدِیُّ ثَنَا الزُّھْرِیُّ قَالَ اَخْبَرَنِیْ سَالِمُ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ (رَضِیَ اللہُ عَنْہُ) رَائیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَاافْتَتَحَ الصَّلٰوۃَ رَفَعَ یَدَیْہِ حَذْوَ مَنْکَبَیْہِ وَاِذَااَرَادَاَنْ یَّرْکَعَ وَبَعْدَ مَا یَرْفَعَ رَاْسَہٗ مِنَ الرَّکُوْعِ فَلَا یَرْفَعُ وَلَا بَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ۔
(مسند حمیدی ج2ص277،مسند ابی عوانۃ ج 1 ص 334 )
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاجب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے ۔رکوع کی طرف جاتے ہوئے، رکوع سے سراٹھاتے ہوئے اور سجدوں کے درمیان رفع یدین نہیں کرتے تھے۔‘‘
:دلیل نمبر5
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ ابْنُ حِبَا نٍ اَخْبَرَ نَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ یُوْسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدِ الْعَسْکَرِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍعَنْ شُعْبَۃَ عَنْ سُلَیْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ الْمُسَیِّبَ بْنَ رَافِعٍ عَنْ تَمِیْمِ بْنِ طُرْفَۃَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہٗ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَاَبْصَرَقَوْمًا قَدْرَفَعُوْا اَیْدِیَھُمْ فَقَالَ قَدْ رَفَعُوْھَا کَاَنَّھَااَذْنَابُ خَیٍل شُمُسٍ اُسْکُنُوْا فِی الصَّلَاۃِ۔‘‘
(صحیح ابن حبان ج3 ص178 ،صحیح مسلم ج1ص181 )
ترجمہ: حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے لوگوں کو رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : ’’انہوں نے اپنے ہاتھوں کوشریرگھوڑوں کی دموں کی طرح اٹھایاہے تم نماز میں سکون اختیار کرو ۔‘‘(نماز میں رفع یدین نہ کرو)
:دلیل نمبر6
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ الْبُخَارِیُّ حَدَّثَنَا یَحْیٰ بْنُ بُکَیْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ عَنْ خَالِدٍ عَنْ سَعِیْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِوبْنِ عَطَائٍ اَنَّہٗ کَانَ جَالِسًا مَعَ نَفَرٍ مِّنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرْنَا صَلٰوۃَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ اَبُوْحُمَیْدِ السَّاعِدِیُّ اَنَا کُنْتُ اَحْفَظُکُمْ لِصَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَاَ یْتُہٗ اِذَا کَبَّرَ جَعَلَ یَدَیْہِ حَذْوَ مَنْکَبَیْہِ وَاِذَا رَکَعَ اَمْکَنَ یَدَیْہِ مِنْ رُکْبَتَیْہِ ثُمَّ ھَصَرَظَھْرَہٗ فَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہٗ اِسْتَویٰ حَتّٰی یَعُوْدَ کُلُّ فَقَارٍ مَّکَانَہٗ وَاِذَا سَجَدَ وَضَعَ یَدَیْہِ غَیْرَمُفَتَرِشٍ وَّلَا قَابِضَہُمَا۔
(صحیح بخاری؛ ج1ص114 ‘ صحیح ابن خزیمہ؛ ج1ص298)
ترجمہ : محمد بن عمر وبن عطاء رحمہ اللہ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے فرماتے ہیں :’’ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نما زکاذکر کیا ( کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیسے نمازپڑھتے تھے؟) توحضرت ابوحمیدساعدی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’میں تم سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازپڑھنے کے طریقے کو زیادہ یاد رکھنے والا ہوں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کے طریقے کو بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب تکبیر تحریمہ کہی تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھایااور جب رکوع کیا تو اپنے ہاتھوں سے اپنے گھٹنوں کومضبوطی سے پکڑاپھر اپنی پیٹھ کو جھکایا جب سر کو رکوع سے اٹھایا توسیدھے کھڑے ہوگئے حتی کہ ہرہڈی اپنی جگہ پر لوٹ آئی اورجب سجدہ کیاتو اپنے ہاتھوں کو اپنے حال پر رکھا نہ پھیلایا اورنہ ہی ملایا ۔‘‘
:دلیل نمبر7
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْجَعْفَرٍ اَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ الطَّحَاوِیُّ حَدَّثَنَا ابْنُ اَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا نُعَیْمُ بْنُ حَمَّادٍ قَالَ ثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوْسٰی قَالَ ثَنَا ابْنُ اَبِیْ لَیْلٰی عَنْ نَافِعٍ عَنْ اِبْنِ عُمَرَ… وَعَنِ الْحَکَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ؛ تُرْفَعُ الْاَیْدِیْ فِیْ سَبْعِ مَوَاطِنَ: فِی افْتِتَاحِ الصَّلٰوۃِ وَ عِنْدَ الْبَیْتِ وَعَلَی الصَّفَائِ وَالْمَرْوَۃِ وَبِعَرْفَاتٍ وَ بِالْمُزْدَلْفَۃِ وَعِنْدَ الْجَمْرَ تَیْنِ۔
(سنن طحاوی ج1ص416 )
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسات جگہوں پر ہاتھوں کو اٹھایا جاتاہے
٭…1 شروع نماز میں ٭…2 بیت اللہ کے پاس ٭…3 صفاء پر ٭…4 مروہ پر ٭…5 عرفات میں ٭…6 مزدلفہ میں ٭…7 جمرات کے پاس۔
:دلیل نمبر8
قَالَ الْاِمَامُ اَبُوْبَکْرِ الاِسْمَاعِیْلِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ بْنُ صَالِحِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ اَبُوْمُحَمَّدٍ صَاحِبُ الْبُخَارِیُّ صَدُوْقٌ ثَبْتٌ قَالَ حَدَّثَنَا اِسْحَاقُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ الْمَرْوَزِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرِ السَّھْمِیُّ عَنْ حَمَّادِ (ابْنِ اَبِیْ سُلَیْمَانَ ) عَنْ اِبْرَاہِیْمَ (النَّخْعِیِّ ) عَنْ عَلْقَمَۃِ (بْنِ قَیْسٍ) عَنْ عَبْدِاللّٰہِ(بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ) قَالَ صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاَبِیْ بَکْرٍ وَّ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَافَلَمْ یَرْفَعُوْا اَیْدِیَھُمْ اِلَّاعِنْدَافْتِتَاحِ الصَّلَاۃِ۔
(کتاب المعجم،امام اسماعیلی؛ ج2ص692،سنن کبریٰ امام بیہقی رحمہ اللہ ج2 ص79 )
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ نماز پڑھی انہوں نے پوری نماز میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کی ۔‘‘
:دلیل نمبر9
قَالَ الْاِمَامُ ابْنُ قَاسِمٍ (حَدَّثَنَا)وَکِیْعٌ عَنْ اَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ قَطَّافِ النَّھْشَلِیِّ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ عَلِیًّا کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ ثُمَّ لَا یَعُوْدُ۔
(المدونۃ الکبریٰ؛ ج۱ص۷۱،مسند زید بن علی ص۱۰۰)
ترجمہ: ’’حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ جب نمازشروع کرتے تو رفع یدین کرتے پھر پوری نما زمیں رفع یدین نہیں کرتے تھے‘‘۔
:دلیل نمبر10
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْ بَکْرِ بْنِ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا اَبُوْبَکْرِ بْنِ عَیَّاشٍ عَنْ حُصَیْنٍ عَنْ مُجَاھِدٍقَالَ مَارَاَیْتُ اِبْنَ عُمَرَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ اِلَّافِیْ اَوَّلِ مَا یَفْتَتِحُ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص268 )
ترجمہ: معروف تابعی حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو شروع نماز کے علاوہ رفع یدین کرتے ہوئے نہیں دیکھا‘‘۔

امام کے پیچھے قراءت نہ کرنے کے دلائل

امام کے پیچھے قراءت نہ کرنے کے دلائل

:دلیل نمبر1
قَالَ اللہُ تَعَالیٰ: وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْالَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَo
(سورۃ اعراف:204)
ترجمہ: ’’جب قرآن مجید پڑھا جائے تو خوب توجہ سے سنو اوربالکل خاموش رہاکرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
تفسیر: قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْمُفَسِّرُابْنُ اَبِیْ حَاتِمِ الرَّازِیُّ ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِالْاَعْلٰی اَنْبَأنَا اِبْنُ وَھْبٍ ثَنَا اَبُوْصَخْرٍعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبِ الْقُرَظِیِّ قَالَ ؛کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا قَرَئَ فِی الصَّلَاۃِاَجَابَہٗ مِنْ وَّرَائِہٖ اِنْ قَالَ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ قَالُوْامِثْلَ مَا یَقُوْلُ حَتّٰی تَنْقَضِیَ الْفَاتِحَۃُ وَالسُّوْرَۃُ۔فَلَبِثَ مَا شَائَ اللّٰہُ اَنْ یَلْبَثَ ثُمَّ نَزَلَتْ{ وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ} فَقَرَئَ وَاَنْصَتُوْا۔
(تفسیر ابن ابی حاتم رازی ؛ج 4 ص 259، کتاب القرأ ۃ ، امام بیہقی ص89 )
ترجمہ: حضرت محمد کعب قرظی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے توپیچھے نماز پڑھنے والے بھی ساتھ ساتھ کلمات دہراتے جاتے ،اگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھتے ،تو پیچھے والے بھی بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھتے یہاںتک کہ سورۃ فاتحہ مکمل ہوجاتی اوریہ سلسلہ جب تک اللہ نے چاہا، چلتا رہا پھر جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی {وَاِذَاقُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْالَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْن}توآپ صلی اللہ علیہ وسلم قرأت فرماتے اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم خاموش رہتے ۔‘‘
:دلیل نمبر2
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْعَوَانَۃَ حَدَّثَنَاسَھْلُ بْنُ بَحْرٍ الْجُنْدِیْ نِیْسَابُوْرِیُّ قَالَ ثَنَا عَبْدُاللّٰہِ بْنُ رَشِیْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا اَبُوْعُبَیْدَۃَ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ یُوْنُسَ بْنِ جُبَیْرٍعَنْ حَطَّانَ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ الرَّقَاشِیِّ عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی الْاَشْعَرِیِّ قَالَ؛ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَاقَرَئَ الْاِمَامُ فَاَنْصِتُوْا وَاِذَاقَالَ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ فَقُوْلُوْا آمِیْنَ۔
(صحیح ابی عوا نۃج1،ص360،سنن ابن ما جۃ؛ ص61)
ترجمہ: حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب امام قرأ ت کرے توتم خاموش رہو اورجب امام {غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ}کہے تو تم ’’آمین‘‘ کہو!
دلیل نمبر3:
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْ عَبْدِاللّٰہِ مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیْدَ بْنِ مَاجَۃَ الْقَزْوِیْنِیُّ حَدَّثَنَا اَبُوْبَکْرِ بْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ ثَنَا اَبُوْخَالِدِ الْاَحْمَرِ عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ زَیْدِ بْنِ اَسْلَمَ عَنْ اَبِیْ صَالِحٍ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ؛ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا جُعِلَ الْاِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِہٖ فَاِذَا کَبَّرَفَکَبِّرُوْاوَاِذَاقَرَئَ فَاَنْصِتُوْا وَاِذَا قَالَ{غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ} فَقُوْلُوْا آمِیْنَ ۔
(سنن ابن ماجہ ص61،سنن النسائی ج1ص146 )
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ امام اس لیے بنایا جاتاہے تاکہ اس کی اقتداء کی جائے جس وقت امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اورجب امام قرآن مجید کی قرأ ت کرے تو تم خاموش رہو جس وقت امام {غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ}کہے تو تم ’’آمین‘‘کہو !‘‘
:دلیل نمبر4
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ مَالِکُ بْنُ اَنَسٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنِ ابْنِ اُکَیْمَۃَ اللَّیْثِیِّ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنْصَرَفَ مِنْ صَلٰوۃٍ جَھَرَ فِیْھَا بِالْقِرَأۃِ فَقَالَ ؛ھَلْ قَرَئَ مَعِیَ مِنْکُمْ اَحَدٌ اٰنِفًا؟ فَقَالَ رَجُلٌ نَعَمْ ! اَنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ! قَالَ؛ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنِّیْ اَقُوْلُ مَا لِیْ اُنَازَعُ الْقُرْاٰنَ فَانْتَھَی النَّاسُ عَنِ الْقِرَائَۃِ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.
(مؤطاامام مالک ص69 ، موطا امام محمد ص95)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہری نماز( جس میں امام بلند آواز سے قرأت کرتاہے )سے فارغ ہوئے تو مڑکرفرمایا کہ’’ تم میں سے کسی نے میرے پیچھے قرآن مجید پڑھا ہے؟ لوگوں (صحابہ کرام) میں سے ایک شخص نے کہا میں (آپ کے پیچھے قرآن مجید پڑھ رہاتھا)یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میں بھی کہوں کہ میرے ساتھ کیوں قرآن کا جھگڑا ہو رہا ہے ؟ اس کے بعدلوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں قرآن مجید پڑھنے سے رک گئے ۔ ‘‘
:دلیل نمبر 5
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ الْاَعْظَمُ اَبُوْحَنِیْفَۃَ نُعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ عَنْ مُّوْسَی بْنِ اَبِیْ عَائِشَۃَ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الْھَادِ اللَّیْثِیِّ اَبِی الْوَلِیْدِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ اَنَّ رَجُلاً قَرَأَخَلْفَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الظُّھْرِاَوِالْعَصْرِ قَالَ : قَالَ فَاَوْمَأاِلَیْہِ رَجُلٌ فَنَھَاہ‘ فَاَبٰی فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ اَتَنْھَانِیْ اَنْ اَقْرَأخَلْفَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَذَاکَرْنَا ذَالِکَ حَتّٰی سَمِعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلّٰی خَلْفَ الْاِمَامِ فَاِنَّ قِرَائَۃَ الْاِمَامِ لَہٗ قِرَائَۃٌ۔
(کتاب الآثارٖامام ابو حنیفۃ براویۃ ابی یوسف ص23 مسند ابی حنیفۃ بروایۃ ابی محمد حارثی ص116 )
ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ایک آدمی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ظہر یا عصرکی نمازمیں قرآن پڑھاتودوسرے آدمی نے اس کو اشارے سے روکا ( کہ وہ قرآن مجید کی قرأت امام کے پیچھے نہ کرے ) جب وہ نماز سے فارغ ہوا توا س نے اس روکنے والے سے کہا:’’کیا تو مجھ کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے قرآن پڑھنے سے روکتا ہے؟ یہ مسئلہ ان دونوں کے درمیان چلتارہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن لیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو شخص امام کے پیچھے نمازپڑھے تو امام کی قرأت مقتدی کی قرأت ہے ۔‘‘یعنی مقتدی کو امام کی قرأت کافی ہے۔
:دلیل نمبر6
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْجَعْفَرٍ اَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدَ الطَّحَاوِیُّ حَدَّثَنَا اَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیٍّ قَالَ ثَنَا عُبَیْدُاللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو عَنْ اَیُّوْبَ عَنْ اَبِیْ قِلَابَۃَ عَنْ اَنَسٍ قَالَ صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ اَقْبَلَ بِوَجْھِہٖ فَقَالَ اَتَقْرَؤوْنَ وَالْاِمَامُ یَقْرَأ فَسَکَتُوْا، فَسَاَلَھُمْ ثَلَاثاً فَقَالُوْااِنَّا لَنَفْعَلُ ھٰذَا قَالَ: فَلَا تَفْعَلُوْا۔
(سنن طحاوی ج1ص159 ،احکام القرآن ،امام طحاوی رحمہ اللہ ج 1، ص 252 )
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کیا تم (اس وقت بھی ) قرأ ت کرتے ہو(جبکہ) امام بھی قرأت کرتا ہے ؟ لوگ(صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) خاموش رہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم )تین مرتبہ سوال کیا تو انہوں(صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) نے کہا :’’ہم امام کے پیچھے قرأ ت کرتے ہیں۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم امام کے پیچھے قرأت نہ کیا کرو!!‘‘
:دلیل نمبر7
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ الْاَعْظَمُ اَبُوْحَنِیْفَۃَ نُعْمَانُ بْنُ ثَابِتِ عَنْ مُّوْسٰی بْنِ اَبِیْ عَائِشَۃَ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ شَدَّادِبْنِ الْھَادِعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ ؛ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ کَانَ لَہٗ اِمَامٌ فَقِرَائَۃُ الْاِمَامِ لَہٗ قِرَائَۃٌ۔
(مسند ابی حنیفۃ بروایۃ محمد الحارثی ص114، مسند ابی حنیفۃ بروایۃ ابی نعیم ص405)
ترجمہ: حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جوشخص امام کے پیچھے ہوتو امام کی قرأت ہی مقتدی کی قرأت ہے ۔‘‘ دلیل نمبر8
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ عَبْدُالرَّزَّاقِ اَخْبَرَنِیْ مُوْسٰی بْنُ عُقْبَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاَبَا بَکْرٍ وَّعُمَرَ وَعُثْمَانَ کَانُوْا یَنْھَوْنَ عَنِ الْقِرَائَۃِ خَلْفَ الْاِمَامِ۔
(مصنف عبدالرزاق ج2 ص91،عمدۃ القاری ج4ص449 )
ترجمہ: حضرت موسیٰ بن عقبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر، حضرت عمر،حضرت عثمان رضی اللہ عنہم امام کے پیچھے قرأ ت کرنے سے روکتے تھے۔‘‘
:دلیل نمبر9
عَنْ زَیْدِ بْنِ اَسْلَمَ قَالَ کَانَ عَشْرَۃٌ مِنْ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْقِرَائَۃِ خَلْفَ الْاِمَامِ اَشَدَّ النَّھْیِ اَبُوْبَکْرِ الصِّدِّیْقِ وَ عُمَرُ الْفَارُوْقُ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ وَعَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ وَعَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ وَسَعْدُ بْنُ اَبِیْ وَقَّاصٍ وَعَبْدُاللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَعَبْدُاللّٰہِ بْنُ عُمَرَ وَعَبْدُاللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ ۔‘‘
(عمدۃ القاری ج۴ص۴۴۹)
ترجمہ: حضرت زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے دس : 1.
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ 2.
حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ 3.
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان 4.
حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب 5.
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ 6.
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ 7.
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ 8.
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ 9.
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما 10.
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما امام کے پیچھے قرأ ت کرنے سے سختی سے روکتے تھے۔
دلیل نمبر10:
رَوَی الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ مَالِکُ بْنُ اَنَسٍ عَنْ نَافِعٍ اَنَّ عَبْدَاللّٰہِ بْنَ عُمَرَکَانَ اِذَا سُئِلَ ھَلْ یَقْرَأْ اَحَدٌ خَلْفَ الْاِمَامِ ؟ قَالَ: اِذَاصَلّٰی اَحَدُکُمْ خَلْفَ الْاِمَامِ فَحَسْبُہٗ قِرَائَۃُ الْاِمَامِ۔ وَاِذَاصَلّٰی وَحْدَہٗ فَلْیَقْرَئْ قَالَ وَکَانَ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ عُمَرَ لَا یَقْرَئُ خَلْفَ الْاِمَامِ۔
(موطا امام مالک ص69، موطا امام محمد ص95)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے جب سوال کیا جاتا کہ کیا کوئی امام کے پیچھے قرأت کرے؟تواس کے جواب میں فرماتے تھے:’’ جب تم میں سے کوئی امام کے پیچھے ہو تو اس کو امام کی قرأت کافی ہے اورجب اکیلا نماز پڑھے تو قرأت کرے اورخودحضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما امام کے پیچھے قرأت نہیں کرتے تھے۔‘‘

ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے دلائل

ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے دلائل 
:دلیل نمبر1
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے
’’ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ‘‘
(سورۃ کوثر؛2)
ترجمہ: نمازپڑھیے! اپنے رب کے لیے اور قربانی کیجیے۔
تفسیر: رَوَی الْاِمَامُ اَبُوْبَکَرِالْاَثْرَمُ قَالَ حَدَّثَنَااَبُوالْوَلِیْدِ الطِّیَالِسِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ عَنْ عَاصِمِ الْجَحْدَرِیِّ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ صَبْھَانَ سَمِعَ عَلِیًّا یَقُوْلُ فِیْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ{فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ} قَالَ وَضْعُ الْیُمْنٰی عَلَی الْیُسْرَیٰ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔
(سنن الاثرم بحوالہ التمہید: ج8،ص164)
ترجمہ: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان {فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ} کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ نماز میں دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پرناف کے نیچے رکھاجائے ۔‘‘
:دلیل نمبر2
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْبَکْرِ بْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا وَکِیْعٌ عَنْ مُوْسَی بْنِ عُمَیْرٍ عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ رَأیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَضَعَ یَمِیْنَہٗ عَلٰی شِمَالِہٖ فِی الصَّلَاۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج1ص427،آثار السنن ؛امام نیموی ص87 )
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاکہ نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا ۔ ‘‘
:دلیل نمبر3
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْبَکْرِ بْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَحَدَّثَنَا اَبُوْمُعَاوِیَۃَ عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ اِسْحَاقَ عَنْ زَیَّادِ بْنِ زَیْدِ السَّوَائِیِّ عَنْ اَبِیْ جُحَیْفَۃَ عَنْ عَلِیٍّ قَالَ مِنْ سُنَّۃِ الصَّلٰوۃِ وَضْعُ الْاَیْدِیْ عَلَی الْاَیْدِیْ تَحْتَ السُّرَرِ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج1ص427الاوسط، امام منذر ج 3 ص94)
ترجمہ: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ہاتھ کوہاتھ پرناف کے نیچے رکھنا نماز کی سنت ہے ۔‘‘
:دلیل نمبر4
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْبَکْرٍ مُحَمَّدُبْنُ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ الْمُنْذِرِحَدَّثَنَا مُوْسَی بْنُ ھَارُوْنَ قَالَ ثَنَایَحْیٰ بْنُ عَبْدِالْحَمِیْدِ قَالَ ثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ بْنُ زَیَّادٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اِسْحَاقَ عَنْ سَیَّارِ اَبِی الْحَکَمِ عَنْ اَبِیْ وَائِلٍ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ؛مِنَ السُّنَّۃِ اَنْ یَّضَعَ الرَّجُلُ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلَی الْیُسْرَیٰ تَحْتَ السُّرَّۃِ فِی الصَّلَاۃِ۔
(الاوسط،امام مندر؛ج3،ص94؛سنن دارقطنی ؛ج1 ، ص 288 )
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’نماز میں مرد کا اپنے دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا، سنت ہے۔‘‘
:دلیل نمبر5
رَوَی الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ زَیْدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبِ الْھَاشْمِیِّ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ عَنْ عَلِیٍّ قَالَ ثَلَاثٌ مِّنْ اَخْلَاقِ الْاَنْبِیَائِ صَلَاۃُ اللّٰہِ وَ سَلَامُہٗ عَلَیْھِمْ تَعْجِیْلُ الْاِفْطَارِ وَ تَاخِیْرُ السُّحُوْرِ وَوَضْعُ الْکَفِّ عَلَی الْکَفِّ تَحْتَ السُّرَّۃِ
(مسند زید بن علی ؛ص204)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انبیاء علیہ السلام کے اخلاق میں سے تین چیزیں ہیں: 1.
روز ہ جلدی افطار کرنایعنی اول وقت میں۔ 2.
سحری دیر سے کرنا یعنی آخری و قت میں۔ 3.
نماز میں ہتھیلی کوہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھنا۔
:دلیل نمبر6
رَوَی الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْبَکْرِ الْبَیْہَقِیُّ بِسَنَدِہٖ عَنْ اَنَسٍ قَالَ مِنْ اَخْلَاقِ النُّبُوَّۃِ تَعْجِیْلُ الْاِفْطَارِ وَتَاخِیْرُ السُّحُوْرِ وَوَضْعُکَ یَمِیْنَکَ عَلٰی شِمَالِکَ فِی الصَّلَاۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔
(مختصر خلافیات بیہقی ج2ص34:محلیٰ ابن حزم ج3 ص30 )
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’انبیائے کرام علیہم السلام کے اخلاق میں سے ہے روزہ جلدی افطار کرنا یعنی اول وقت میں اوردیر سے سحری کرنا یعنی آخری وقت میں اورنماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پرناف کے نیچے رکھنا۔‘‘
:دلیل نمبر7
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْدَاوٗدَ السَّجِسْتَانِیُّ حَدَّثَنَامُسَدَّدٌ نَاعَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زَیَّادٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ اِسْحَاقَ الْکُوْفِیِّ عَنْ سَیَّارِ اَبِی الْحَکَمِ عَنْ اَبِیْ وَائِلٍ قَالَ اَبُوْہُرَیْرَۃَ اَخْذُالْکَفِّ عَلَی الْکَفِّ فِی الصَّلٰوۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔
(سنن ابی دائود ج1ص118، اعلاء السنن ج2 ص196 )
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ نماز میں ہاتھ کی ہتھیلی کوپکڑ کرناف کے نیچے رکھناسنت ہے۔‘‘
:دلیل نمبر8
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الشَّیْبَانِیُّ اَخْبَرَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ صَبِیْحٍ عَنْ اَبِیْ مَعْشَرٍعَنْ اِبْرَاہِیْمَ النَّخْعِیِّ اَنَّہٗ کَانَ یَضَعُ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰی یَدِہِ الْیُسْرَیٰ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔
ٖ(کتاب ا لآثار؛امام ابوحنیفۃ بروا یۃامام محمد ج1، ص 322 ،مصنف ابن ابی شیبۃ ج1 ص427 )
ترجمہ: ’’حضرت امام ابرہیم نخعی رحمہ اللہ (جلیل القدر تابعی ہیں وہ) نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھتے تھے۔‘‘
:دلیل نمبر9
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْبَکْرِ بْنِ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ھَارُوْنَ قَالَ اَخْبَرَنَاحَجَّاجُ بْنُ حَسَّانٍ قَالَ سَمِعْتُ اَبَامِجْلَزٍاَوْسَاَلْتُہٗ قَالَ( رَحِمَہُ اللہُ ) قُلْتُ کَیْفَ یَضَعُ؟ قَالَ یَضَعُ بَاطِنَ کَفِّ یَمِیْنِہٖ عَلٰی ظَاہِرِ کَفِّ شِمَالِہٖ وَیَجْعَلُھَا اَسْفَلَ مِنَ السُّرَّۃِ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج1ص427 ،الجوہر النقی؛ ج2ص31)
ترجمہ: حضرت ابومجلز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’نمازی نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے اندر والے حصہ کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے ظاہری حصہ پرناف کے نیچے رکھے ۔‘‘
:دلیل نمبر10
اَلْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ الْاَعْظَمُ اَبُوْحَنِیْفَۃَ نُعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ قَالَ مُحَمَّدٌ وَبِہٖ نَاْخُذُ وَھُوَ قَوْلُ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ {یَضَعُ الْیُمْنٰی عَلٰی یَدِہٖ الْیُسْرَیٰ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔}
(کتاب الآثار ؛امام ابو حنیفۃ بروایۃ امام محمد ج1 ص323 احکام القرآن، امام طحاوی؛ ج1ص185)
ترجمہ: حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’نمازی نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھے۔

مرد و عورت کی نماز میں فرق کے دلائل

مرد و عورت کی نماز میں فرق کے دلائل

مرد و عورت ہاتھ کہاں تک اٹھائیں
:دلیل نمبر1
عَنْ وَاِئلِ بْنِ حُجْرٍقَالَ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ! اِذَا صَلَّیْتَ فَاجْعَلْ یَدَیْکَ حِذَائَ اُذُنَیْکَ وَالْمَرْاَۃُ تَجْعَلُ یَدَیْھَا حِذَائَ ثَدْیَیْھَا۔
(المعجم الکبیر للطبرانی ج 9ص 144حدیث نمبر17497)
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے وائل بن حجر!جب تو نماز پڑھے تو اپنے ہاتھ اپنے کانوں کے برابر اٹھا اور عورت کے لیے فرمایا کہ وہ اپنی چھاتیوں کے برابر ہاتھ اٹھائے۔‘‘
:مرد و عورت کے طریقہ رکوع میں فرق
:دلیل نمبر2
عَنْ سَالِمِ الْبَرَّادِ قَالَ: اَتیْنَا عُقْبَۃَ بْنَ عَمْروٍ الْاَنْصَارِی اَبَا مَسْعُوْدٍ فَقُلْنَا لَہٗ حَدِّثْناَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَامَ بَیْنَ اَیْدِیْنَا فِی الْمَسْجِدِ فَکَبَّرَ فَلَمَّارَکَعَ وَضَعَ یَدَیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ وَجَعَلَ اَصَابِعَہٗ اَسْفَلَ مِنْ ذٰلِکَ وَ جَافٰی بَیْنَ مِرْفَقَیْہِ
(سنن ابی داود ج1 ص 133باب صلوۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود )
ترجمہ: حضرت سالم البراد رحمہ اللہ (تابعی) کہتے ہیں کہ ہم ابو مسعود عقبۃ بن عمرو الانصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ ہم نے کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں بتائیں؟ تو وہ مسجد میں ہمارے سامنے کھڑے ہو گئے، پس تکبیر کہی۔ پھر جب رکوع کیا تو اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھااور اپنی انگلیوں کو اس سے نیچے کیااور اپنی کہنیوں کو اپنے پہلو سے دور رکھا۔
:دلیل نمبر3
غیر مقلد عالم ابو محمد عبد الحق ہاشمی نے رکوع‘ سجود‘ قعود میں مرد و عورت کے فرق پر ایک رسالہ بنام : ’’نصب العمود فی مسئلۃ تجافی المرأۃ فی الرکوع و السجود و القعود.‘‘ تصنیف کیا۔ اس میں ابن حزم ظاہری اور جمہور علماء کے موقف کو نقل کر کے فرماتے ہیں:
’’عِنْدِیْ بِالْاِخْتِیَارِ قَوْلُ مَنْ قَالَ:اِنَّ الْمَرْأۃَ لَاَ تُجَافِیْ فِی الرُّکُوْعِ… لِاَنَّ ذٰلِکَ اَسْتَرُ لَھَا‘‘
(ص52)
ترجمہ: میرے نزدیک ان لوگوں کا مذہب راجح ہے جو یہ کہتے ہیں کہ عورت رکوع میں اعضاء کو کشادہ نہ کرے…… کیونکہ یہ کیفیت اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والی ہے۔
:مرد و عورت کے طریقہ سجدہ میں فرق
:دلیل نمبر4
عَنْ اَبِیْ حُمَیْدٍ فِیْ صِفَۃِ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:وَاِذَ ا سَجَدَ فَرَّجَ بَیْنَ فَخِذَیْہِ غَیْرَ حَامِلٍ بَطَنَہٗ عَلٰی شَیْ ئٍ مِّنْ فَخِذَیْہِ۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی ج 2ص115)
ترجمہ: حضرت ابو حمید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تھے تو پیٹ کو رانوں سے بالکل نہیں ملاتے تھے۔
:دلیل نمبر5
وَعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاِذَا سَجَدَتْ اَلْصَقَتْ بَطْنَھَا فِیْ فَخْذِھَاکَاَسْتَرِ مَا یَکُوْنُ لَھَافَاِنَّ اللّٰہَ یَنْظُرُ اِلَیْھَا وَ یَقُوْلُ: یَا مَلَائِکَتِیْ! اُشْھِدُکُمْ اَنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لَھَا۔
(الکامل لابن عدی ج 2ص631)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب عورت سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں کے ساتھ ملا دے کیونکہ یہ کیفیت اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والی ہے اور اللہ تعالی عورت کی اس حالت کو دیکھ کر فرماتے ہیں اے میرے فرشتو! میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اس کو بخش دیا ہے۔‘‘
:دلیل نمبر6
عَنْ مُجَاھِدٍ کَانَ یَکْرَہُ اَنْ یَضَعَ الرَّجُلُ بَطَنَہٗ عَلٰی فَخِذَیْہِ اِذَا سَجَدَ کَمَا تَضَعُ الْمَرْاَۃُ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج1 ص302 باب المراۃ کیف تکون فی سجودھا)
ترجمہ: حضرت مجاہد (تابعی) رحمہ اللہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ مرد جب سجدہ کرے تو عورت کی طرح پیٹ کو اپنی رانوں پر رکھے۔
:دلیل نمبر7:
عَنْ اَبِیْ اِسْحَاقَ قَالَ وَصَفَ لَنَا الْبَرَائُ بْنِ عَازِبٍ فَوَضَعَ یَدَیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ وَ رَفَعَ عَجِیْزَتَہٗ وَ قَالَ ھٰکَذَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْجُدُ۔
(سنن ابی داود ج 1ص137 باب صفۃ السجود، سنن النسائی ج 1ص166 باب صفۃ السجود)
ترجمہ: حضرت ابو اسحاق(تابعی) رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدہ کا طریقہ بتایا۔چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر رکھااور اپنی سرین کو اونچا کیااور فرمایا کی بنی علیہ السلام اسی طرح سجدہ کرتے تھے۔
:دلیل نمبر8
عَنِ الْحَسَنِ وَ قَتَادَۃَ قَالاَ: اِذَا سَجَدَتِ الْمَرْاَۃُ فَاِنَّھَا تَنْضَمُّ مَا اسْتَطَاعَتْ وَ لَا تُجَافِیْ لِکَیْ لَا تَرْتَفِعُ عَجِیْزَتُھَا۔
(مصنف عبد الرزاق ج 3ص137)
ترجمہ: حضرت حسن بصری(تابعی) اور حضرت قتادہ(تابعی) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جب عورت سجدہ کرے تو جس حد تک سمٹ سکتی ہے‘ سمٹنے کی کوشش کرے اور اعضاء کو کشادہ نہ کرے تاکہ اس کی سرین اونچی نہ ہو۔‘‘
:دلیل نمبر9
عَنْ مَیْمُوْنَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا سَجَدَ جَافٰی یَدَیْہِ حَتّٰی لَوْ اَنَّ بَھْمَۃً اَرَادَتْ اَنَّ تَمَرَّ تَحْتَ یَدَیْہِ مَرَّتْ۔
(سنن النسائی ج1 ص167 باب التجافی فی السجود)
ترجمہ: حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنے بازؤں کو زمین اور پہلو سے اتنا دور رکھتے کہ اگر بکری کا بچہ بازؤں کے نیچے سے گزرنا چاہتا تو گزر سکتا۔
:مرد و عورت کے بیٹھنے میں فرق
:دلیل نمبر10
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ … وَ قَالَ: اِنَّمَا سُنَّۃُ الصَّلَاۃِاَنْ تَنْصَبَ رِجْلَکَ الْیُمْنٰی وَ تَثْنِی الْیُسْریٰ۔
(الصحیح للبخاری ج 1ص 114باب سنۃ الجلوس فی التشھد)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’نماز میں بیٹھنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ آپ دائیں پاؤں کو کھڑا رکھیں اوربائیں پاؤں کو بچھا دیں۔‘‘
:دلیل نمبر11
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْرِشُ رِجْلَہٗ الْیُسْریٰ وَ یَنْصِبُ رِجْلَہٗ الْیُمْنٰی۔
(الصحیح لمسلم ج1 ص195 باب صفۃ الجلوس بین السجدتین و فی التشھد الاول)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بائیں پاؤں کو بچھاتے اور اپنے دائیں پاؤں کو کھڑا رکھتے تھے۔
:دلیل نمبر12
عَنِ ابْنِ عُمَرَ اَنَّہٗ سُئِلَ کَیْفَ کَانَ النِّسَائُ یُصَلِّیْنَ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: کُنَّ یَتَرَبَّعْنَ ثُمَّ اُمِرْنَ اَنْ یَّحْتَفِزْنَ۔
(جامع المسانید ج 1ص400 )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں کیسے نماز پڑھتی تھیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیاکہ وہ پہلے قعدہ میں آلتی پالتی مار کر بیٹھتی تھیں‘ پھر ان کو حکم دیا گیا کہ اپنی سرینوں پر بیٹھا کریں۔
مسجد اور گھر کون کس جگہ نماز ادا کرے ؟
:دلیل نمبر13
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:صَلٰوۃٌ مَعَ الْاِمَامِ اَفْضَلُ مِنْ خَمْسٍ وَّ عِشْرِیْنَ صَلٰوۃً یُصَلِّیْھَا وَاحِدٌ۔
(الصحیح لمسلم ج 1ص 231)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’امام کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پچیس نمازیں پڑھنے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔‘‘
:دلیل نمبر14
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: صَلٰوۃُ الْمَرْاَۃِ وَحْدَھَا اَفْضَلُ عَلٰی صَلٰوتِھَا فِی الْجَمْعِ بِخَمْسٍ وَّ عِشْرِیْنَ دَرَجَۃً۔
(التیسیر الشرح لجامع الصغیر للمناوی ج2 ص195‘ جامع الاحادیث للسیوطی ج 13ص497 حدیث نمبر13628 )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورت کا اکیلے نماز پڑھنا اس کی نماز با جماعت پر پچیس گنا فضیلت رکھتی ہے۔‘‘
:دلیل نمبر15
عَنْ اُمِّ حُمَیْدٍ اِمْرَأۃِ اَبِیْ حُمَیْدِ السَّاعِدِیِّ اَنَّھَا جَائَتْ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!اِنِّیْ اُحِبُّ الصَّلٰوۃَ مَعَکَ۔ قَالَ قَدْ عَلِمْتُ اَنَّکِ تُحِبِّیْنَ الصَّلٰوۃَ مَعِیْ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ بَیْتِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلاَ تِکِ فِیْ حُجْرَتِکِ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ حُجْرَتِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلٰوتِکِ فِیْ دَاِرکِ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ دَارِکِ خَیْرٌ مِنْ صَلٰوتِکِ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلٰوتِکِ فِیْ مَسْجِدِیْ۔قَالَ فَاَمَرَتْ فَبُنِیَ لَھَا مَسْجِدٌ فِیْ اَقْصٰی شَیْئٍ مِنْ بَیْتِھَا وَ اَظْلَمِہٖ وَ کَانَتْ تُصَلِّیْ فِیْہِ حَتّٰی لَقِیَتِ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ
(الترغیب والترھیب للمنذری ج1 ص225 باب ترغیب النساء فی الصلاۃ فی بیوتھن و لزومھا و ترھیبھن من الخروج منھا)
ترجمہ: حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی بیوی ام حمید رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اورعرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کرتی ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں جانتا ہوں کہ تو میرے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کرتی ہے۔(لیکن) تیرا اپنے گھر میں نماز پڑھنا تیرے حجرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘ اور تیرا حجرے میں نماز پڑھنا چار دیواری میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘چاردیواری میں نماز پڑھنا تیری قوم کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور قوم کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ حضرت ام حمید رضی اللہ عنہا نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا سمجھ کر) اپنے گھر والوں کو حکم دیا تو ان کے لیے گھر کے دور اور تاریک ترین گوشہ میں نماز کی جگہ بنا دی گئی۔ وہ اپنی وفات تک اسی میں نماز پڑھتی رہیں۔
:مرد و عورت کی نماز کا فرق اور فقہاء اربعہ
(1): قَالَ الْاِمَامُ الْاَعْظَمُ فِی الْفُقَھَائِ اَبُوْحَنِیْفَۃَ:وَالْمَرْاَۃُ تَرْفَعُ یَدَیْھَاحِذَائَ مَنْکَبَیْھَا ھُوَ الصَّحِیْحُ لِاَنَّہٗ اَسْتَرُ لَھَا۔
(الھدایۃ فی الفقہ الحنفی ج1 ص84 باب صفۃ الصلوۃ) وَقَالَ اَیْضاً:وَالْمَرْاَۃُ تَنْخَفِضُ فِیْ سُجُوْدِھَاوَتَلْزَقُ بَطْنَھَا بِفَخْذَیْھَا لِاَنَّ ذٰلِکَ اَسْتَرُ لَھَا۔ (الھدایۃ فی الفقہ الحنفی ج1 ص92)
ترجمہ: امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عورت اپنے ہاتھوں کو اپنے کندھوں تک اٹھائے کیونکہ اس میں پردہ زیادہ ہے۔
مزید فرمایا: عورت سجدوں میں اپنے جسم کو پست کرے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملائے کیونکہ اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والا ہے۔ (2) :
قَالَ الْاِمَامُ مَالِکُ بْنُ اَنَسٍ:وَالْمَرْاَۃُ دُوْنَ الرَّجُلِ فِی الْجَھْرِ وَھِیَ فِیْ ھَیْاَۃِ الصَّلاَۃِ مِثْلَہٗ غَیْرَ اَنَّھَا تَنْضَمُّ وَ لاَ تُفَرِّجُ فَخْذَیْھَا وَلاَ عَضُدَیْھَاوَتَکُوْنُ مُنْضَمَّۃً مُتَرَوِّیَۃً فِیْ جُلُوْسِھَا وَسُجُوْدِھَا وَاَمْرِھَا کُلِّہٖ۔
(رسالۃ ابن ابی زید القیروانی المالکی ص34)
ترجمہ: اما م مالک بن انس رحمہ اللہ نے فرمایا:عورت کی نماز کی کیفیت مرد کی نماز کی طرح ہے مگر یہ کہ عورت سمٹ کر نماز پڑھے ‘ اپنی رانوں اور بازؤں کے درمیان کشادگی نہ کرے اپنے قعود‘ سجود اور نماز کے تمام احوال میں۔ (3):
قَالَ الْاِمَامُ مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافَعِیّ:وَقَدْ اَدَّبَ اللّٰہُ النِّسَائَ بِالْاِسْتِتَارِ وَاَدَّبَھُنَّ بِذَالِکَ رَسُوْلُہٗ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاُحِبُّ لِلْمَرْاَۃِ فِی السُّجُوْدِ اَنْ تَنْضَمَّ بَعْضَھَااِلٰی بَعْضٍ وَتَلْصَقُ بَطَنَھَا بِفَخِذَیْھَا وَتَسْجُدُ کَاَسْتَرِمَایَکُوْنُ لَھَاوَھٰکَذَا اُحِبُّ لَھَا فِی الرُّکُوْعِ وَ الْجُلُوْسِ وَجَمِیْعِ الصَّلَاۃِ اَنْ تَکُوْنَ فِیْھَا کَاَسْتَرِ َمایَکُوْنُ لَھَا۔
(کتاب الام للشافعی ج 1ص 286ص 287باب التجافی فی السجود)
ترجمہ: امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:اللہ تعالی نے عورت کو پردہ پوشی کا ادب سکھایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی ادب سکھایا ہے۔ اس ادب کی بنیاد پر میں عورت کے لیے یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ سجدہ میں اپنے بعض اعضاء کو بعض کے ساتھ ملائے اور اپنے پیٹ کو رانوں کے ساتھ ملا کر سجدہ کرے‘ اس میں اس کے لیے زیادہ ستر پوشی ہے۔ اسی طرح میں عورت کے لیے رکوع ،قعدہ اور تمام نماز میں یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ نماز میں ایسی کیفیات اختیار کرے جس میں اس کے لیے پردہ پوشی زیادہ ہو۔ (4):
قَالَ الْاِمَامَ اَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ:وَالْمَرْاَۃُ کَالرَّجُلِ فِیْ ذٰلِکَ کُلِّہٖ اَنَّھَا تَجْمَعُ نَفْسَھَا فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ وَتَجْلِسُ مُتَرَبِّعَۃً اَوْتَسْدُلُ رِجْلَیْھَافَتَجْعَلُھُمَا فِیْ جَانِبِ یَمِیْنِھَا۔۔۔۔۔ قَالَ اَحْمَدُ:اَلسَّدْلُ اَعْجَبُ اِلَیَّ۔
(الشرح الکبیر لابن قدامۃ ج1 ص599 ‘ المغنی لابن قدامۃ ج1 ص635)
ترجمہ: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: سب احکام میں مرد کی طرح ہے مگر رکوع و سجود میں اپنے جسم کو سکیڑ کر رکھے اور آلتی پالتی مار کر بیٹھے یا اپنے دونوں پاؤں اپنی دائیں جانب نکال کر بیٹھے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:’’عورت کا اپنے دونوں پاؤں اپنی دائیں جانب نکال کر بیٹھنا میرے ہاں پسندیدہ عمل ہے۔‘‘
:چند محدثین کے نام جنھوں نے مرد و عورت کی نماز میں فرق بیان کیا 1.
امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ م96ھ۔ آپ محدث و مفتی کوفہ ہیں۔ 2.
امام مجاہد رحمہ اللہ م102ھ۔ محدث و مفتی مکہ ہیں۔ 3.
امام عامر الشعبی رحمہ اللہ م104ھ۔ آپ کی 500صحابہ رضی اللہ عنہم سے ملاقات ثابت ہے۔ کوفہ کے بہت بڑے محدث‘ فقیہ‘ مفتی اور مغازی کے امام تھے۔ 4.
امام حسن بصری رحمہ اللہ م 110ھ۔ بصرہ کے محدث اور مفتی تھے۔ 5.
امام عطاء رحمہ اللہ م114ھ۔ آپ محدث و مفتی مکہ ہیں۔
:مولانا عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ کا فیصلہ
قَالَ الْاِمَامُ عَبْدُ الْحَئْیِ اللَّکْنَوِیِّ: وَاَمَّا فِیْ حَقِّ النِّسَائِ فَاتَّفَقُوْاعَلٰی اَنَّ السُّنَّۃَ لَھُنَّ رَفْعُ الْیَدَیْنِ عَلَی الصَّدْرِ لِاَنَّھَامَا اَسْتَرُ لَھَا۔
(السعایۃ ج 2ص156)
ترجمہ: عورتوں کے حق میں علماء نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ اس کے لیے سینہ تک ہاتھ اٹھانا سنت ہے کیونکہ اس میں پردہ زیادہ ہے۔

آمین آہستہ کہنے کے دلائل

آمین آہستہ کہنے کے دلائل

:دلیل نمبر1
:آمین دعاہے
قَالَ اللہُ تَعَالیٰ:قَدْاُجِیْبَتْ دَعْوَتُکُمَا۔
(سورۃ یونس:89)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ وہارون کے بارے میں فرمایاکہ تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی
’’اَخْرَجَ اَبُوالشِّیْخِ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ کَانَ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلاَمِ اِذَادَعَا اَمَّنَ ھَارُوْنُ عَلَیْہِ السَّلاَمِ عَلٰی دُعَائِہِ۔ یَقُوْلُ آمِیْن‘‘
(تفسیر درمنثور ج3،ص567)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ حضرت موسیٰ علیہ السلام دعامانگتے اور حضرت ہارون علیہ السلام ان کی دعا پر آمین کہتے ۔‘‘
’’ قَالَ عَطَائُ آمِیْنُ دُعَائٌ ‘‘
(صحیح بخاری :ج1،ص107)
ترجمہ: معروف جلیل القدر تابعی حضرت عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’آمین دعا ہے۔‘‘
:دعا میں اصل یہ ہے کہ آہستہ کی جائے
اُدْعُوْارَبَّکُمْ تَضَرُّعاًوَّخُفْیَۃً
(سورۃ الاعراف:55)
ترجمہ: دعامانگو تم اپنے رب سے عاجزی اورآہستہ آواز سے۔
:دلیل نمبر2
:آمین اللہ تعالی کانام ہے
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ وَھِلَالِ بْنِ یَسَافٍ وَ مُجَاہِدٍ قَالَ؛آمِیْنُ اِسْمٌ مِّنْ اَسْمَائِ اللّٰہِ تَعَالٰی۔
(مصنف عبدالرزاق ج2ص64 ،مصنف ابن ابی شیبۃ ج2ص316)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ،حضرت ہلال بن یساف رحمہ اللہ اورحضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’ آمین‘‘ اللہ کانام ہے۔
:ذکر میں اصل یہ ہے کہ آہستہ کیا جائے
وَاذْکُرْرَبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعاًوَّخِیْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ۔
(سورۃ اعراف:205)
ترجمہ: ’’ ذکر کیجیے اپنے رب کا دل میں عاجزی اورخوف کے ساتھ ، آہستہ آواز میں۔
قَالَ الْاِمَامُ فَخْرُالدِّیْنِ الرِّازِیُّ قَالَ اَبُوْحَنِیْفَۃَ اِخْفَائُ التَّامِیْنِ اَفْضَلٌ وَاحْتَجَّ اَبُوْحَنِیْفَۃَ عَلٰی صِحَّۃِ قَوْلِہِ قَالَ فِیْ قَوْلِہِ (آمِیْنٌ) وَجْھَانِ؛اَحُدُھُمَا: اَنَّہُ دُعَائٌ۔ وَالثَّانِیْ: اَنَّہُ مِنْ اَسْمَائِ اللّٰہِ فَاِنْ کَانَ دُعَائٌ وَجَبَ اِخْفَائُہُ لِقَوْلِہِ تَعَالٰی{ اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعاًوَّخُفْیَۃً} وَاِنْ کَانَ اِسْماً مِّنْ اَسْمَائِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَجَبَ اِخْفَائُہُ لِقَوْلِہِ تَعَالٰی {وَاذْکُرْرَبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعاًوَّخِیْفَۃً}
(تفسیر کبیرامام رازی ج14 ص131 )
ترجمہ: امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا:’’ آہستہ آواز سے’’ آمین ‘‘کہنا افضل ہے اوراپنے قول کی صحت پر دلیل قائم کی اورفرمایا کہ اس قول (آمین) میں دوجہتیں ہیں:
:آمین دعاہے۔ (2 ) آمین اللہ کا نام ہے
اگر آمین’’دعا‘‘ہے تو اس کا آہستہ آواز سے کہنا واجب ہے {اُدْعُوْارَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَّخُفْیَۃً}کی وجہ سے اور اگر آمین اللہ تعالیٰ کانام ہے تو بھی اس کا آہستہ آواز سے کہنا واجب ہے {وَاذْکُرْرَبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعاً وَّخِیْفَۃ ً}کی وجہ سے۔‘‘
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ اَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا یَحْیَ بْنُ سَعِیْدٍ عَنْ اُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ لَبِیْبِۃَ عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِکٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:’’خَیْرُ الذِّکْرِ اَلْخَفِیُّ‘‘
(مسند احمد ؛ج1ص228)
ترجمہ: حضرت سعدبن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’سب سے بہتر ذکر آہستہ آواز کے ساتھ کرنا ہے ۔‘‘
:دلیل نمبر3
:نماز میں آمین آہستہ کہا جائے
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْدَاوٗد َالطِّیَالْسِیُّ حَدَّثَنَاشُعْبَۃُ قَالَ اَخْبَرَنِیْ سَلْمَۃُ بْنُ کُھَیْلٍ قَالَ سَمِعْتُ حُجْراً اَبَاالْعَنْبَسِ قَالَ سَمِعْتُ عَلْقَمَۃَ بْنَ وَائِلٍ یُحَدِّثُ عَنْ وَائِلٍ وَ قَدْ سَمِعْتُ مِنْ وَائِلٍ اَنَّہُ صَلّٰی مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا قَرَأَ {غَیْرِالْمَغْضُـوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ} قَالَ آمِیْنٌ خَفِضَ بِھَا صَوْتَہُ۔
(مسند ابی دائودطیالسی ص138 ،مسند احمد ج4ص389 )
ترجمہ: حضرت وائل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے {غَیْرِ الْمَغْضُـوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ}کی قرأت کی تو ’’آمین ‘‘ آہستہ آواز سے کہی۔‘‘
:دلیل نمبر4
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْدَاوٗدَ السَّجِسْتَانِیُّ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ نَا یَزِیْدُ نَاسَعِیْدٌ نَا قَتَادَۃُ عَنِ الْحَسِنِ اَنَّ سَمُرَۃَ بْنَ جُنْدُبٍ وَ عِمْرَانَ بْنَ حُصَیْنٍ تَذَاکَرَا فَحَدَّثَ سَمُرَۃُ بْنُ جُنْدُبٍ اَنَّہُ حَفِظَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَکْتَتَیْنِ: سَکْتَۃٌ اِذَاکَبَّرَوَسَکْتَۃٌ اِذَا فَرَغَ مِنْ قِرَائَۃِ {غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ}
(سنن ابی دائود: ج1،ص122 )
ترجمہ: حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے درمیان نمازمیں سکتوں کے متعلق مذاکرہ ہوا توحضرت سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازمیں دو سکتوں کو یادکیا ایک جب تکبیر تحریمہ کہتے، سکتہ کرتے یعنی خاموش رہتے اور دوسرا جب{غَیْرِ الْمَغْضُـوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ}کی قرأت سے فارغ ہوتے تو سکتہ کرتے ،یعنی خاموش رہتے۔
:دلیل نمبر5
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْجِعْفَرِ الطَّحَاوِیُّ الْحَنْفِیُّ حَدَّثَنَا سَلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبِ الْکِیْسَانِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ ثَنَا اَبُوْبَکْرِ بْنِ عَیَاشٍ عَنْ اَبِیْ سَعْدٍ عَنْ اَبِیْ وَائِلٍ قَالَ کَانَ عُمَرُوَعَلِیُّ لاَ یَجْھَرَانِ بِبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَلَابِالتَّعَوُّذِ وَلَابِالتَّامِیْنَ۔
(سنن طحاوی ج1ص150)
ترجمہ: حضرت ابووائل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم ، اعوذ باللہ من الشیطن الرحیم اورآمین کی قرأت کے وقت آواز بلند نہیں کرتے تھے ۔‘‘
:دلیل نمبر6
عَنْ اَبِیْ وَائِلٍ قَالَ کَانَ عَلِیُّ وَعَبْدُاللّٰہِ لَا یَجْھَرَانِ بِبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَلَابِالتَّعَوُّذِ وَلَابِالتَّامِیْنَ۔
(اعلاء السنن ج2ص249)
ترجمہ: حضرت ابووائل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم ،اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم اورآمین کی قرأت کے وقت آواز بلند نہیں کرتے تھے۔‘‘
:دلیل نمبر7
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ یُخْفِی الْاِمَامُ ثَلَاثًا:اَلْاِسْتِعِاذَۃُ وَبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَآمِیْنٌ۔
(المحلی بالآثار،امام ا بن حزم رحمہ اللہ ج2ص280)
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ امام نماز میں تین چیزوں ’’اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم اورآمین کی قرأ ت آہستہ آواز سے کرے۔‘‘
:دلیل نمبر8
رَوَی الْاِمَامُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ الْاَعْظَمُ اَبُوْحَنِیْفَۃَ نُعْمَانُ بْنُ ثَابِتِ التَّابِعِیُّ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ اَرْبَعٌ یُخَافِتُ بِھِنَّ الْاِمَامُ؛سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَالتَّعَوُّذِ مِنَ الشَّیْطَانِ وَبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَآمِیْن۔
(کتاب الآثار ،امام ابو حنیفۃ بروایۃ امام محمد ج1ص162 ،مصنف عبدالرزاق ج2ص57)
ترجمہ: حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’امام نماز میں سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ،بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اورآمین کی قرأت آہستہ آواز سے کرے۔‘‘
:دلیل نمبر9
عَنِ النَّخْعِیِّ وَالشَّعْبِیِّ وَاِبْرَاہِیْمَ التَّیْمِیِّ کَانُوْا یَخْفُوْنَ بِاٰمِیْنَ۔
(الجوہر النقی ج2ص58)
ترجمہ: ’’حضرت امام نخعی،حضرت امام شعبی اور حضرت امام ابراہیم تیمی رحمہم اللہ نماز میں ’’آمین ‘‘آہستہ آواز سے کہتے تھے ۔ ‘‘
نوٹ : یادرہے ان میں امام شعبی رحمہ اللہ پانچ سوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے شاگرد ہیں
:دلیل نمبر10
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ اْلاَعْظَمُ اَبُوْحَنِیْفَۃَ نُعْمَانُ بْنُ ثَابِتِ التَّابِعیُّ (اَرْبَعٌ یُخَافِتُ بِھِنَّ الْاِمَامُ؛سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَالتَّعَوُّذِ مِنَ الشَّیْطٰنِ وِبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَآمِیْن) قَالَ مُحَمَّدٌ وَبِہِ نَاْخُذُ وَھُوَ قَوْلُ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ ۔
(کتاب الآثار امام ابو حنیفۃ بروایۃامام محمد ج1ص162 )
ترجمہ: حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’امام نماز میں سبحانک اللھم وبحمدک ،اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیماورآمین کی قرأت آہستہ آواز سے کرے۔ امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم اسی پر عمل کرتے ہیں اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے ۔‘‘

نماز جنازہ کے دلائل

نماز جنازہ کے دلائل

:نماز جنازہ میں صرف پہلی تکبیر میں رفع یدین کریں
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ عَلَی الْجَنَازۃِ فِیْ اَوّلِ تَکْبِیْرَۃٍ ثمَّ لَایَعُوْدُ۔
(دار قطنی ج2 ص314)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ میں صرف پہلی تکبیر میں رفع یدین کرتے تھے پھر دوبارہ نہیں کرتے تھے۔‘‘
:نماز جنازہ میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھیں
عَنْ اَبیْ ہُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَبَّرَ علَی الْجَنَازَۃِ فَرَفَعَ یَدیْہِ فِیْ اوَّلِ تَکْبِیْرَۃٍ وَوَضَعَ الْیُمْنیٰ عَلَی الْیُسْریٰ ۔
(ترمذی ج1 ص206،دار قطنی ج2 ص314)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز جنازہ پڑھتے تو پہلی تکبیر میں رفع یدین کرتے اور دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ لیتے ۔
:نماز جنازہ میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھیں
عَنْ اَبِیْ وَائِلٍ قَالَ اَبُوْ ہُرَیْرَۃَ اَخْذُ الْکَفِّ عَلَی الْاَکُفِّ فِی الصَّلٰوۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔
(سنن ابی داؤد ج 1ص118)
ترجمہ: حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نماز میں ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا جائے۔
:نماز جنازہ میں چار تکبیریں کہیں
1: اَنَّ سَعِیْدَ بْنَ الْعَاصِ سَأَلَ اَبَامُوْسٰی الْاَ شْعَرِی وَحُذَیْفَۃَ کَیْفَ کَانَ یُکَبِّرُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْاَضْحٰی وَالْفِطْرِ فَقَالَ اَبُوْ مُوْسٰی کَانَ یُکَبِّرُ اَرْبَعًا تَکْبِیْرَۃً عَلَی الْجَنَائِزِ فَقَالَ حُذَیْفَۃُ صَدَقَ ۔
(سنن ابی داؤد ج1ص170)
ترجمہ : حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحیٰ اور عید الفطر میں کتنی تکبیریں کہتے تھے ؟ تو حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے جواب دیا چار تکبیریں نماز جنازہ کی تکبیروں کی طرح۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ انہوں نے سچ کہا۔
2: عَنْ عَبْدِاللّٰہِ (بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ )یَقُوْلُ اَلتَّکْبِیْرُفِی الْعِیْدَیْنِ اَرْبَعٌ کَالصَّلٰوۃِ عَلَی الْمَیِّتِ وَفِیْ رِوَایَۃٍ اَلتَّکْبِیْرُ عَلَی الْجَنَائِزِ اَرْبَعٌ کَالتَّکْبِیْرِ فِی الْعِیْدَیْنِ۔
(سنن طحاوی ج1 ص320 التکبیر علی الجنائز کم ھو؟)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عیدین کی چار تکبیریں ہیں نماز جنازہ کی طرح اور ایک روایت میں ہے کہ نماز جنازہ کی چار تکبیریں ہیں نماز عیدین کی تکبیروں کی طرح
:پہلی تکبیر میں یہ دعا پڑھیں
سُبْحَانَکَ الّٰلھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ۔
( سنن نسائی ج1 ص143 )
:دوسری تکبیر میں یہ درود شریف پڑھیں
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌمَجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌمَجِیْدٌ ۔
(صحیح بخاری ج1 ص477 )
:تیسری تکبیر میں بالغ مرد وعورت کے لئے یہ دعا پڑھیں
اَلّٰلھُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَشَاھِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِیْرِناَ وَکَبِیْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثٰنَا اَلّٰلھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَاَحْیِہٖ عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِیْمَانِ ۔
(مستدرک حاکم ج1ص684،مصنف عبدالرزاق ج3 ص313 )
:تیسری تکبیر میں نا بالغ لڑکے کے لئے یہ دعا پڑھیں
اَلّٰلھُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا فَرَطاً وَّاجْعَلْہُ لَنَا اَجْرًا وَّذُخْرًا وَّاجْعَلْہُ لَنَا شَافِعًا وَّمُشَفَّعًا۔
(سنن کبریٰ بیہقی ج4 ص10،الہدایہ مع نصب الرایہ ج2 ص279)
:تیسری تکبیر میں نابالغ لڑکی کے لئے یہ دعا پڑھیں
اَلّٰلھُمَّ اجْعَلْہَا لَنَا فَرَطاً وَّاجْعَلْہَا لَنَا اَجْرًا وَّذُخْرًا وَّاجْعَلْہَا لَنَا شَافِعَۃً وَّمُشَفَّعۃً۔
:نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ اور دوسری سورۃ کی قراء ۃ نہ کریں
: عَنْ نَافِعٍ اَنَّ عَبْدَاللّٰہِ بْنَ عُمَرَ کَانَ لَا یَقْرَاُ فِی الصَّلٰوۃِ عَلَی الْجَنَازَۃِ۔
(موطا امام مالک ج1ص210،مصنف ابن ابی شیبۃ ج7 ص258)
ترجمہ: حضرت نافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نماز جنازہ میں قرأت نہیں کرتے تھے۔
2 : قَالَ اِبْنُ وَھْبٍ عَنْ رِجَالٍ مِّنْ اَھْلِ الْعِلْمِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَعَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ وَعَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَوَعُبَیْدِ بْنِ فُضَالَۃَ وَاَبِیْ ہُرَیْرَۃَوَجَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ وَوَاثِلَۃَ بْنِ الْاَسْقَعِ وَالْقَاسِمِ وَسَالِمِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ وَابْنِ الْمُسَیِّبِ وَرَبِیْعِۃَوَعَطَائٍ وَیَحْییٰ بْنِ سَعِیْدٍ اَنَّھُمْ لَمْ یَکُوْنُوْا یَقْرَؤُنَ فِی الصَّلٰوۃِ عَلَی الْمَیِّتِ۔
(المدونۃ الکبریٰ ج1ص251)
ترجمہ: حضرت ابن و ہب رضی اللہ عنہ بہت سے اہل علم حضرات سے نقل کرتے ہیں کہ مثلاً حضرت عمر بن خطاب ،حضرت علی بن ابی طالب،حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبید بن فضال، حضرت ابو ہریرہ ،حضرت جابر بن عبداللہ ،حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہم اورحضرت قاسم،حضرت سالم بن عبداللہ،حضرت سعید بن مسیب ، حضرت عطاء،حضرت یحییٰ بن سعید رحمہم اللہ نماز جنازہ میں قرأت نہیں کرتے تھے۔
:نماز جنازہ میں دعائیں آہستہ آوازسے پڑھیں
1 قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ :اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْیَۃً…الایۃ
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’ پکارو اپنے رب کو گڑگڑاکر اور چپکے چپکے۔
2 مولوی مبشر ربانی غیر مقلد لکھتے ہیں:’’نمازجنازہ میں قرائت جہراً وسراً دونوں درست ہے،البتہ دلائل کی رو سے سراً پڑھنا زیادہ بہتر اور اولیٰ ہے۔‘‘ نیز لکھتے ہے:’’بہر کیف! سری پڑھنا حدیث سے صراحتاً اور جہری پڑھنا استدلالاً ثابت ہے ۔اس لیے آہستہ پڑھنا زیادہ قوی وبہتر ہے ۔‘‘
(آپ کے مسائل ج1ص244)
3 ڈاکٹر شفیق الرحمٰن غیرمقلد لکھتے ہیں:’’سنت یہ ہے کہ نماز جنازہ میں۔۔۔ دعائیں آہستہ پڑھی جائیں ۔‘‘
(نماز نبوی از شفیق الرحمٰن ص294 ایڈیشن 2002)
:نماز جنازہ بغیر کسی عذر کے مسجد میں نہ پڑھیں
1 عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلّٰی عَلیٰ جَنَازَۃٍ فِی الْمَسْجِدِ فَلَیْسَ لَہٗ شَیْئیٌ۔
(سنن ابی داود ج2ص98،ابن ماجہ ص109)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے مسجد میں نمازجنازہ پڑھی اس کے لیے کوئی کچھ بھی نہیں ہے (یعنی نہ نما ز ہوئی نہ اجروثواب ملا
2 عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا ھَلَکَ الْھَالِکُ شَھِدَہٗ یُصَلِّی عَلَیْہِ حَیْثُ یُدْفَنُ فَلَمَّا ثَقُلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَدَّنَ نَقَلَ اِلَیْہِ الْمُؤمِنُوْنَ مَوْتَاھُمْ فَصَلّٰی عَلَیْھِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْجَنَائِزِ عَنْدَ بَیْتِہٖ فِیْ مَوْضِعِ الْجَنَائِزِ اَلْیَوْمَ وَلَمْ یَزَلْ ذٰلِٰکَ جَارِیاً۔
(تاریخ مدینۃمنورہ ج1ص1)
ترجمہ: جلیل القدر تابعی حضرت ابن شہاب زہری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’جب کسی کی وفات ہوجاتی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بموقع د فن نماز (جنازہ ) پڑھانے کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاجسم مبارک ذرا بھاری ہوگیا(اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جانا دشوار ہوگیا تو ) صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اپنے موتیٰ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کے قریب لے آتے ۔ رسول اللہ اپنے مکان کے قریب موضع جنائز (جنازہ گاہ)میں نماز جنازہ پڑھتے ۔ یہی دستور آج تک چلا آ رہا ہے۔ ‘‘
قَالَ الْاِمَامُ ابْنُ الْقَیِّمِ الْجَوْزِیُ وَالصَّوَابُ مَا ذَکَرْنَاہُ اَوَّلاً وَاِنَّ سُنَّتَہٗ وَھَدْیَہٗ الصَّلٰوۃُ عَلَی الْجَنَازَۃِ خَارِجَ الْمَسْجِدِ اِلَّا لِعُذْرٍ۔
(زاد المعاد ج1ص206)
ترجمہ: علامہ ابن قیم جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’درست بات وہی ہے جو ہم پہلے ذکرکر چکے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز جنازہ مسجد سے باہر پڑھنا ہے الا یہ کہ کوئی عذر پیش آ جائے۔ ‘‘
:غائبانہ نمازجنازہ نہیں پڑھنی چاہیے
1 عَنْ عِمْرَانَ بْنَ حُصَیْنٍ …قَالَ أنْبَأنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اَخَاکُمُ النَّجَاشِیَّ تُوُفِّیَ فَقُوْمُوْا فَصَلُّوْا عَلَیْہِ فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَفُّوْا خَلْفَہٗ وَکَبَّراَرْبَعًا وَھُمْ لَا یَظُنُّوْنَ اِلَّا اَنَّ جَنَازَتَہٗ بَیْنَ یَدَیْہِ۔
(صحیح ابن حبان ج5ص40حدیث 3102)
ترجمہ : حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تمہارا بھائی نجاشی( رضی اللہ عنہ ) وفات پا گیا ہے، کھڑے ہوجاؤ اور اس پر تم نماز (جنازہ) پڑھو!چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اورحضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار تکبیریں کہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہی گمان کررہے تھے کہ جنازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہے۔‘‘
2 عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ نَزَلَ جِبْرَئِیْلُ عَلَی النَّبِی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَاتَ مُعَاوِیَۃُ بْنُ الَّلیْثِیُّ فَتُحِبُّ اَنْ تُصَلِّیَ عَلَیْہِ قَالَ نَعَمْ…فَرُفِعَ سَرِیْرُہٗ فَنَظَرَاِلَیْہِ فَکَبَّرَعَلَیْہِ۔
(مسند ابی یعلٰی موصلی ص799 حدیث 4268)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’جبرائیل علیہ السلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے (اور ) فرمایا معاویہ بن معاویہ لیثی رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے ہیں کیا آپ ان کی نماز جنازہ پڑھنا چاہتے ہیں؟توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جی ہاں!۔۔پس ان کی چارپائی کو اٹھا لیا گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور اس پر تکبیر کہی۔“ (یعنی ان کی نماز جنازہ پڑھی )
نوٹ : بعض حضرات غائبانہ نماز جنازہ کو ثابت کرنے کے لیے حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ اورحضرت معاویہ بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے جنازوں کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی تھی۔
ہم کہتے ہیں کہ ان حضرات کے جنازے غائب نہ تھے بلکہ بطور معجزہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لائے گئے تھے اور پردوں کو ہٹا دیا گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی تھی۔
3 ڈاکٹر شفیق الرحمٰن غیر مقلد لکھتے ہیں :’’غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے پر نجاشی رضی اللہ عنہ کے قصہ سے دلیل لی جاتی ہے یہ قصہ صحیح بخار ی اور صحیح مسلم میں موجود ہے مگر اس سے غائبانہ نماز جنازہ پر استدلال کرناصحیح نہیں ہے۔
(نماز نبوی ص296 ایڈیشن جون 2002)
4 فَلاَ تَجُوْزُالصَّلٰوۃُ عَلَی الْغَائِبِ…بِاَتِّفِاقِ الْحَنْفِیَّۃِ وَالْمَالِکِیَّۃِ۔
(کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ ج1 ص474)
ترجمہ: غائبانہ نمازجنازہ کے جائز نہ ہونے پر حنفیوں اور مالکیوں کا اتفاق ہے
5 قَدْ قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ ابْنُ تُرْکَمَانَیُّ قُلْتُ وَلَوْ جَازَتِ الصَّلٰوۃُ عَلٰی غَائِبٍ لَصَلّٰی عَلَیْہِ عَلٰی مَنْ مَّاتَ مِنْ اَصْحَابِہٖ وَیُصَلّی الْمُسْلِمُوْنَ شَرْقًا وَغَرْبًا عَلَی الْخُلَفَائِ الْاَرْبَعَۃِ وَغَیْرِھِمْ وَلَمْ یُنْقَلْ ذَالِکَ۔
(الجوہر النقی علی سنن الکبریٰ بیہقی ج4ص51)
ترجمہ: امام ابن ترکمانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر غائب پر نماز جنازہ جائز ہوتی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے جو بھی (دور دراز کے علاقوں میں) فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نماز جنازہ ضرور پڑھتے اور حضرات خلفاء اربعہ وغیرہ پر مسلمان مشرق و مغرب میں (غائبانہ)جنازے پڑھتے، لیکن یہ بات منقول نہیں۔
6 جناب زبیر علی زئی غیر مقلد لکھتے ہیں:’’ (غائبانہ نماز جنازہ)دلیل کے عموم کی وجہ سے اور نجاشی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تخصیص کی صریح دلیل نہ ہونے کی بناء پر جائز ہے لیکن چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ،خلفائے راشدین رضی اللہ عنہ ودیگر سلف کا عام معمول یہ نہیں تھا ۔لہذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہ کے عام معمول کو اپنانا ہی افضل وبہتر ہے با لخصوص جب کہ غائبانہ نماز کو حصول شہرت اور دیگر نام نہاد سیاسی و مالی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہو۔
(نماز نبوی تحقیق و تخریج زیبر علی زئی ص370)
نوٹ: حضرت ابو ہریرہ ،حضرت عمران بن حصین ،حضرت جابر بن عبداللہ ،حضرت ابو سعید خدری اور حضرت حذیفہ بن اسیدالغفاری رضی اللہ عنہم ان حضرات سے نجاشی رضی اللہ عنہ کے واقعہ اور جنازہ کی روایات منقول ہیں جن سے بعض حضرات نے غائبانہ نماز جنازہ کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے لیکن باوجودروایات کو بیان کرنے کے ان حضرات میں سے کسی ایک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اپنی وفات تک کسی کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی یا پڑھائی ہو ایسی کوئی صحیح صریح حدیث موجود نہیں جس میں لفظ غائب ہو روایت مفسر ہو اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم بھی ثابت ہو کہ آیا وہ سنت ہے یا واجب؟
:چوتھی تکبیر کے بعد دونوں طرف نماز کی طرح سلام پھیریں
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ ثَلاَثُ خِلاَلٍ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُھُنَّ تَرَکَھُنَّ النَّاسُ اِحْدَاھُنَّ اَلتَّسْلِیْمُ عَلَی الْجَنَازَۃِ مِثْلَ التَّسْلِیْمِ فِی الصَّلٰوۃِ ۔
(سنن کبریٰ بیہقی ج4 ص43)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ تین کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے جنہیں لوگوں نے ترک کردیا۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ نماز جنازہ پر اس طرح سلام پھیرنا جس طرح نماز میں سلام پھیرا جاتا ہے (یعنی نماز جنازہ میں دونوں طرف سلام پھیرنا )
:تدفین کے وقت یہ دعاپڑھیں
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْعَلَائِ بْنِ اللَّجْلَاجِ قَالَ قَالَ لِیْ اَبِیْ یَا بُنَیَّ اِذَا مِتُّ فَاَلْحِدْ لِیْ لَحْدًا فَاِذَاوَضَعْتَنِیْ فِیْ لَحْدِیْ فَقُلْ بِسْمِ اللّٰہِ وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ شَنَّ التُّرَابَ عَلَیَّ شَنّاً۔
(مجمع الزوائد ج3ص162 حدیث4243)
ترجمہ : حضرت عبدالرحمن بن العلاء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ فرمایا مجھے میرے باپ (العلاء رضی اللہ عنہ )نے اے میرے بیٹے! جب میں فوت ہو جاؤں تو میرے لئے لحد (یعنی بغلی قبر ) بنانا ۔ جب مجھے قبر میں رکھنے لگو توبسم اللہ وعلیٰ ملۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہنا ، پھر میرے اوپر مٹی ڈالنا۔
تدفین کے بعد سراور پا ؤ ں کی جانب کھڑے ہوکیا پڑھا جائے؟
عَنِ ابْنِ عُمَرَیَقُوْلُ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِذَا مَاتَ اَحَدُکُمْ فَلاَ تَجَسُّوْہُ وَاسْرَعُوْابِہٖ اِلٰی قَبْرِہٖ وَلْیُقْرَأْ عِنْدَ رَأْسِہٖ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَعِنْدَرِجْلَیْہِ بِخَاتِمَۃِ الْبَقَرَۃِ فِیْ قَبْرِہٖ۔
(معجم کبیرطبرانی ج6 ص255 )
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :’’ جب کوئی فوت ہوجائے تو تم اس کو روکے نہ رکھو اور جلدی لے چلو اس کو اس کی قبر کی طرف اور اس کے سر کی جانب سورہ فاتحہ اورپاؤں کی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیات پڑھی جائے ۔‘‘
:تدفین کے بعد کی دعا
عَنْ عُثْمَانَ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَیِّتِ وَقَفَ عَلَیْہِ فَقَالَ اِسْتَغْفِرُوْا لِاَخِیْکُمْ ثُمَّ سَلُوْا لَہٗ بِالتَّثْبِیْتِ فَاِنَّہٗ اَلْاٰنَ یُسْأَلُ۔
(سنن ابی داؤد ج2ص103 )
ترجمہ : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دفن میت سے فارغ ہوکر قبر پرکھڑے ہوتے اور فرماتے اپنے بھائی کے لیے بخشش کی دعا کرو اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ثابت قدمی کی درخواست کرو اس سے اس وقت سوال کیا جاتا ہے ۔