Popular Posts

Thursday, June 4, 2015

قربانی اور ایام قربانی کے دلائل

قربانی اور ایام قربانی کے دلائل

:ثبوت قربانی
قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ : فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ۔
(سورۃ الکوثر )
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے فرمایا نما زپڑھئے اپنے رب کے لئے اور قربانی کیجئے
قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ:وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوْااسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَارَزَقَھُمْ مِنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ۔
(سورۃ الحج)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ہم نے ہر امت کے لیے قربانی مقرر کردی تاکہ اللہ نے جو چوپائے انہیں دیے ہیں ان پر اللہ کا نام لیا کریں۔
عَنْ زَیْدِ ابْنِ اَرْقَمَ قَالَ قَالَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا ھٰذَا الْاَضَاحِیُّ؟ قَالَ سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ قَالُوْا فَمَا لَنَا فِیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ۔ قَالُوْا فَالصُّوْفُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِنَ الصُّوْفِ حَسَنَۃٌ۔
(سنن ابن ماجۃ ص 266 )
ترجمہ: حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ قربانی کیا ہے؟ (یعنی قربانی کی حیثیت کیا ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت (اور طریقہ) ہے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ ہمیں اس قربانی کے کرنے میں کیا ملے گا؟فرمایا: ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے (پھر سوال کیا) یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اون (کے بدلے میں کیا ملے گا؟)فرمایا اون کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی۔
:صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ۔دَلَالَتُھَا عَلٰی وُجُوْبِ صَلٰوۃِ الْعِیْدِ وَانْحَرْ اَلْبُدْنَ بَعْدَھَا ظَاھِرَۃٌ۔
(اعلا ء السنن ج17ص219)
ترجمہ: ’’ فَصَلِّ لِرَبِّکَ ‘‘سے جس طرح نماز عید کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے اسی طرح ’’وَانْحَرْ ‘‘ سے قربانی کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ کَانَ لَہٗ سِعَۃٌ وَلَمْ یُضَحِّ فَلَا یَقْرُبَنَّ مُصَلَّانَا۔
(سنن ابن ماجہ ص226)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو شخص استطاعت کے باوجود بھی قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔‘‘
نوٹ: اس حدیث میں قربانی نہ کرنے پر وعید آئی ہے اور وعید واجب کے چھوڑنے پر ہوا کرتی ہے۔ .
عَنْ مِخْنَفِ بْنِ سُلَیْمٍ قَالَ کُنَّا وُقُوْفاً عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَرْفَتِہٖ فَقَالَ یٰاَیُّھَاالنَّاسُ اِنَّ عَلٰی کُلِّ اَہْلِ بَیْتٍ فِیْ کُلِّ عَامٍ اُضْحِیَّۃٌ۔
(سنن ابن ماجہ، باب الاضاحی واجبۃ ھی ام لا)
ترجمہ: حضرت مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا :’’ہم عرفہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو!ہر گھر والے یعنی صاحب نصاب )پر ہر سال قربانی (واجب)ہے۔‘‘
:قربانی کے جانور
قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ:ثَمٰنِیَۃَ اَزْوَاجٍ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْمَعْزِاثْنَیْنِ … الایۃ۔وَمِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِ …الایۃ
(سورۃ الانعام)
ترجمہ: آٹھ نر مادہ ہیں دو بھیڑوں میں سے،دوبکریوں میں سے،دو اونٹوں میں سے اوردو گایوں میں سے ۔
نوٹ: بھینس گائے کے حکم میں ہے اور بھینس کی قربانی جائز ہے۔
:بھینس کی قربانی جائز ہے
وَاجْمَعُوْا عَلٰی اَنَّ حُکْمَ الْجَوَامِیْسَ حُکْمُ الْبَقَرَۃِ ۔
(کتاب الاجماع امام ابن منذر ص37)
ترجمہ: أئمہ حضرات کا اس بات پر اجماع ہے کہ بھینس کا حکم گائے والا ہے۔(یعنی دونوں کا حکم ایک ہے) .
قاضی محمد عبداللہ ایم اے ایل ایل بی (خانپوری )کا فتویٰ:تمام علماء کا اس مسئلہ میں اجماع ہے کہ سب بہیمۃ الانعام (چرنے چگنے والے چوپایوں) کی قربانی جائز ہے کم از کم بھینس کی قربانی میں کوئی شک نہیں ہے۔
( ہفت روزہ الاعتصام لاہور ج20 شمارہ42،43ص9) بھینس کی قربانی غ
:غیرمقلدین علماء کی نظر میں
:مولوی ثناء اللہ امرتسری کا فتویٰ
جہاں حرام چیزوں کی فہرست دی ہے وہاں یہ الفاظ مرقوم ہیں
قُلْ لَّا اَجِدُ فِیْمَا اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗ اِلَّا اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا‘‘
(سورۃ الانعام)
ان چیزوں کے سواء جس چیز کی حرمت ثابت نہ ہو وہ حلال ہے بھینس ان میں نہیں اس کے علاوہ عرب لوگ بھینس کو بقرہ (گائے )میں داخل سمجھتے ہیں۔
تشریح: ہاں! اگر اس (بھینس )کو جنس بقر(گائے کی جنس)سے مانا جائے یا عموم بہیمۃ الانعام پر نظر ڈالی جائے تو حکم جواز قربانی کے لیے یہ علت کافی ہے۔
(فتاویٰ ثنائیہ ج1 ص807اخباراہل حدیث ص11 دہلی)
:حافظ محمد گوندلوی کا فتوی
بھینس بھی بقر میں شامل ہے اس کی قربانی جائز ہے۔
(ہفت روزہ الاعتصام ج20 شمارہ9،10،ص 29 ) 5.
:عبدالقادر حصاروی ساہیوال کا فتویٰ
خلاصہ بحث یہ ہے کہ بکری گائے کی(قربانی ) مسنون ہے اور بھینس بھینسا کی قربانی جائز اور مشروع ہے اور ناجائز لکھنے والے کا مسلک واضح نہیں ہے۔
(اخبار الاعتصام ج26 شمارہ150 بحوالہ فتوی علمائے حدیث ج13 ص71 ) 6.
:ابوعمر عبدالعزیز نورستانی کافتویٰ
مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر میری ناقص رائے میں ان علماء کا مؤقف درست اور صحیح ہے جو(بھینس کی قربانی کے)قائل ہیں۔
(بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ،از حافظ نعیم الحق ملتانی ص154) 7.
:حافظ عبدالقہار نائب مفتی جماعت غرباء اہلحدیث کراچی کا فتویٰ
واضح ہو کہ شرعاً بھینس چوپایہ جانوروں میں سے ہے اور اس کی قربانی کرنا درست ہے ۔کیونکہ گائے کی جنس سے ہے گائے کی قربانی جائز ہے اس لیے بھینس کی قربانی جائز و درست ہے اس دلیل کو اگر نہ مانا جائے تو گائے کے ہم جنس بھینس کے دودھ اور اس کا گوشت کے حلال ہونے کی بھی دلیل مشکوک ہو جائے گی۔
(بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ ص156) 8.
:حافظ احمداللہ فیصل آبادی کا فتویٰ
میری کئی سالوں کی تحقیق ہے کہ بھینسے کی قربانی جائز ہے لہٰذا میں آپ کے ساتھ بھینسے کی قربانی کرنے میں متفق ہوں۔
(بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ ص159) 9.
:پروفیسر سعد مجتبیٰ السعیدی تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں
آخر میں لکھتے ہیں کہ لہٰذا گائے کی مانند بھینس کی قربانی بلا تردد جائز ہے
(بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ ص18 ) 10.
:مولوی محمد رفیق الاثری پیش لفظ میں لکھتے ہیں
یہ مسئلہ کہ قربانی میں بھینس ذبح کی جاسکتی ہے یا نہیں ۔سلف صالحین میں متنازعہ مسائل میں شمار نہیں ہوا چند سال سے یہ مسئلہ اہل حدیث عوام میں قابل بحث بنا ہوا ہے ۔جبکہ ایسے مسئلہ میں شدت پیدا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
(بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ ص19)
:قربانی کے جانور کی عمر
بھیڑ بکری ایک سال کی ہو یا ایسا دنبہ اور بھیڑ جو ہو تو چھ ماہ کا لیکن دیکھنے میں ایک سال کا معلوم ہوتا ہو اور گائے بھینس دو سال کی اور اونٹ پانچ سال کا ہو تو ان سب جانوروں کی قربانی کرنا جائز ہے۔
عَنْ جَابِرِبْنِ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَاتَذْبَحُوْا اِلَّا مُسَنَّۃً اِلَّا اَنْ یُّعْسَرَ عَلَیْکُمْ فَتَذْبَحُوْا جِذْعَۃً مِّنَ الضَّأْنِ۔
(صحیح مسلم ج2 ص155،باب سن الاضحیۃ)
ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم عمر والا جانور ذبح کرو اگر عمروالا جانور ملنا مشکل ہو تو بھیڑ کا چھ ماہ کا بچہ جو دیکھنے میں سال کا لگتاہوذبح کرو۔‘‘
:اونٹ اور گائے میں شرکاء کی تعداد
عَنْ جَابِرِ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُھَلِّیْنَ بِالْحَجِّ فَأمَرْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ نَشْتَرِکَ فِی الْاِبِلِ وَالْبَقَرِ کُلُّ سَبْعَۃٍ مِّنَّا فِیْ بُدْنَۃٍ ۔
(صحیح مسلم ج2 ص424باب جواز الاشتراک)
ترجمہ: حضرت جابررضی اللہ عنہ نے کہاکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ ہم میں سے اونٹ اور گائے میں سات سات (آدمی)شریک ہو جائیں ۔
عَنْ جَابِرٍ قَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِشْتَرَکُوْا فِی الْاِبِلِ وَالْبَقَرِ کُلُّ سَبْعَۃٍ فِیْ بُدْنَۃٍ۔
(اعلاء السنن ج17 ص204،صحیح ابن حبان ص3919 باب القران)
ترجمہ: حضرت جابررضی اللہ عنہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا: ’’تم اونٹ اور گائے میں سات سات آدمی شریک ہوجاؤ۔‘‘
عَنْ جَابِرٍقَالَ نَحَرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَیْبِیَّۃِ اَلْبُدْنَۃُ عَنْ سَبْعَۃٍ وَالْبَقَرُ عَنْ سَبْعَۃٍ۔
(صحیح مسلم ج2 ص424باب جواز الاشتراک فی الہدی)
ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ کے سال قربانی کی اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے اور بیل سات آدمیوں کی طرف سے۔
:بکری صرف ایک آدمی کی طرف سے
عَنِ ابْنِ عُمَرَاَنَّہٗ قَالَ اَلشَّاۃُ عَنْ وَاحِدٍ۔
(اعلاء السنن ج17 ص 210 باب ان البدنۃ عن سبعۃ)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ (قربانی میں)بکری ایک (آدمی ) کی طرف سے ہے۔
نوٹ : زبیر علی زئی لکھتے ہیں :’’ بکری اور مینڈھے میں اتفاق ہے کہ صرف ایک آدمی کی طرف سے ہی کافی ہے۔‘‘
(مقالات زبیر علی زئی ج2 ص215)
:خصی جانور کی قربانی پسندیدہ ہے
عَنْ جَابِرٍ قَالَ ذَبَحَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الذَّبْحِ اَقْرَنَیْنِ اَمْلَحَیْنِ مَوْجُوئَیْنَ
(سنن ابی داؤد ج2 ص30 باب مایستحب من الضحایا)
ترجمہ: حضرت جابررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحیٰ کے دن سینگوں والے دھبے دار خصی دو مینڈھے ذبح کیے۔‘‘
:حلال جانور کے سات اعضاء کھانا مکروہ ہیں
عَنْ مُجَاھِدٍقَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَکْرَہُ مِنَ الشَّاۃِ سَبْعًا اَلدَّمُ وَالْجَیَائُ وَالْاُنْثَیَیْنِ وَالْغَدُّ وَالذَّکَرُ وَالْمَثَانَۃُوَالْمَرَارَۃُ۔
(مصنف عبدالرزاق ج4 ص 409 باب مایکرہ من الشاۃ )
ترجمہ: حضرت مجاہدرحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بکرے کے سات اعضاء کے (کھانے کو)پسند نہیں کرتے تھے۔
(1) خون(2) مادہ جانور کی شرمگاہ(3) خصیتین(4) حرام مغز(5) نرجانور کی پیشاب گاہ(6) مثانہ(7 )پِتَّا
:قربانی کا وقت
قربانی کا وقت شہر والوں کے لئے نماز عید ادا کرنے کے بعد اور دیہات والوں کے لیے (جن پر نماز جمعہ فرض نہیں ہے )صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے لیکن سورج طلوع ہونے کے بعد کرنابہتر ہے۔
(فتاویٰ عالمگیری ج5 ص364،فتاویٰ شامی ج9 ص528،موطا امام محمدص282باب الرجل یذبح اضحیتہ )
اِنَّ عُوَیْمَرَ بْنَ اَشْقَرَ ذَبَحَ اُضْحِیَتَہٗ قَبْلَ یَغُدُّ وَیَوْمَ الْاَضْحٰی وَاَنَّہٗ ذَکَرَ ذٰلِکَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاٰمُرَہٗ اَنْ یَّعُوْدَ بِاُضْحِیَتِہٖ اُخْرَیٰ ۔
(موطا امام محمد ص282باب الرجل یذبح اضحیتہ،موطاامام مالک ص495)
ترجمہ: حضرت عویمر بن اشقر رضی اللہ عنہ نے عید الاضحیٰ کے دن صبح سے پہلے اپنی قربانی کرلی اس بات کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ دوسری قربانی کرو!
:شرائط قربانی
قربانی کے واجب ہونے کی چار شرطیں ہیں:
(1) مسلمان ہونا(2) آزاد ہونا(3) مقیم ہونا(4) مال دار ہونا
:مسافر پر قربانی واجب نہیں
عَنْ عَلِیٍّ قَالَ لَیْسَ عَلَی الْمُسَافَرِ اُضْحِیَۃٌ۔
(محلیٰ بالآثار ج6 ص37 کتاب الاضاحی )
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مسافر پر قربانی (واجب)نہیں۔
:قربانی کے تین دن ہیں
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ اَلْاَیَّامُ الْمَعْلُوْمَات…فَالْمَعْلُوْمَاتُ یَوْمُ النَّحْرِ وَیَوْمَانِ بَعْدَہٗ
(تفسیر ابن ابی حاتم رازی ج6 ص261)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:’’ ایام معلومات۔چنانچہ ایام معلوم یوم نحر (دسویں ذی الحجہ)اور اس کے بعد دو دن (11،12ذی الحجہ) ہیں۔‘‘
عَنْ عَلِیٍّ اَلنَّحْرُ ثَلَاثَۃُ اَیَّامٍ
(احکام القرآن امام طحاوی ج2ص205)
ترجمہ: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’کہ قربانی تین دن ہے۔‘‘
3) عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ اَلذَّبْحُ بَعْدَ النَّحْرِ یَوْمَانِ۔
(سنن کبریٰ بیہقی ج9ص297باب من قال الاضحی یوم النحر)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’قربانی(دسویں ذی الحجہ یعنی عید کے دن کے) بعدصرف دو دن ہے ۔‘‘
:قربانی کے تین دن کے متعلق غیر مقلدین کا فیصلہ
جناب زبیر علی زئی(غیر مقلد) لکھتے ہیں:’’ قول راجح میں قربانی تین ہیں۔‘‘
( مقالات علی زئی ج2 ص219 الحدیث44 ص6تا11)
نیز لکھتے ہیں: ’’سیدنا علی المرتضیٰ(رضی اللہ عنہ )اور جمہور صحابہ کرام(رضی اللہ عنہم ) کا یہی قول ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں ایک عید الاضحی اور دو دن بعد میں تو ہماری تحقیق میں راجح ہے اور امام مالک (رحمہ اللہ) نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے ۔ ‘‘
(فتاوی علی زئی ج2 ص181)
مولوی عمر فاروق غیرمقلد لکھتے ہیں:’’ تین دن قربانی کے قائلین کا مذہب راجح اور قرین صواب ہے۔‘‘
(قربانی اور عقیقہ کے مسائل ص 137)
:عید کے چوتھے دن قربانی کرنا سنت سے ثابت نہیں
مولوی محمد فاروق( غیر مقلد) لکھتے ہیں
بعض لوگ قصداً قربانی میں تاخیر کر کے تیرہ ذوالحجہ کو ذبح کرتے ہیں اور تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ چونکہ یہ دن بھی ایام قربانی میں شامل ہے اور اس دن لوگوں نے قربانی ترک کر دی ہے لہٰذا ہم یہ عمل سنت متروکہ کہ احیاء کی خاطر کرتے ہیں لیکن چوتھے دن قربانی کرنا سنت سے ثابت ہی نہیں تو متروکہ سنت کیسے ہوئی ؟بلکہ ایام قربانی تین دن (10،11،12 ذوالحجہ) ہیں ، تیرہ ذوالحجہ کا دن ایام قربانی میں شامل ہی نہیں۔
( قربانی اور عقیقہ کے مسائل ص141)
:قربانی کا نصاب
ہر اس شخص پر قربانی واجب ہے جس پر صدقۃ الفطر واجب ہے۔
(فتاوی عالمگیری ج5ص360)
ذبح کون کرے؟
قربانی کے جانور کو مسلمان ذبح کرے گا۔
(فتاوی شامی ج9 ص474)

No comments:

Post a Comment