اونٹ اور گائے میں شرکاء کی تعداد:
عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ " فَأَمَرَنَا
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَشْتَرِكَ فِي
الْإِبِلِ ، وَالْبَقَرِ كُلُّ سَبْعَةٍ مِنَّا فِي بَدَنَةٍ " .
ترجمہ: حضرت جابررضی اللہ عنہ نے کہاکہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر نکلے اور آپﷺ نے ہم کو حکم دیا کہ ہم میں سے اونٹ اور گائے میں سات سات (آدمی)شریک ہو جائیں ۔
تخريج الحديث
|
عَعَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ... اشْتَرِكُوا فِي الإِبِلِ وَالْبَقَرِ ، كُلُّ سَبْعَةٍ فِي بَدَنَةٍ۔
(اعلاء السنن ج17 ص204،صحیح ابن حبان ص3919 باب القران)
ترجمہ: حضرت جابررضی اللہ عنہ سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا: ’’تم اونٹ اور گائے میں سات سات آدمی شریک ہوجاؤ۔‘‘
تخريج الحديث
|
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : " نَحَرْنَا
مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ
الْحُدَيْبِيَةِ الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ ، وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ
" .
ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ حدیبیہ کے سال قربانی کی اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے اور بیل سات آدمیوں کی طرف سے۔
تخريج الحديث
|
عَنِ ابْنِ عُمَرَ: اَنَّہٗ قَالَ اَلشَّاۃُ عَنْ وَاحِدٍ۔
(اعلاء السنن ج17 ص 210 باب ان البدنۃ عن سبعۃ)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ (قربانی میں)بکری ایک (آدمی ) کی طرف سے ہے۔
نوٹ : زبیر علی زئی لکھتے ہیں :’’ بکری اور مینڈھے میں اتفاق ہے کہ صرف ایک آدمی کی طرف سے ہی کافی ہے۔‘‘
(مقالات زبیر علی زئی ج2 ص215)
خصی جانور کی قربانی پسندیدہ ہے:
الموجوء : عربی میں خصی جانور کو کہتے ہيں ، اور یہ گوشت کے اعتبار سے غالبا "فحل" (سانڈ یعنی نر جانور) سے بہتر اور اکمل ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس خصی جانور کی قیمت دُوسرے بکرے کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔
حدیث # 1
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : ذَبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الذَّبْحِ كَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مُوجَأَيْنِ
ترجمہ: حضرت جابررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:’’ نبی اکرمﷺ نے عید الاضحیٰ کے دن سینگوں والے دھبے دار خصی دو مینڈھے ذبح کیے۔‘‘
تخريج الحديث
خصی جانور کی قربانی کرنا نہ صرف جائز بلکہ افضل وبہتر ہے، آں حضرتﷺ سے
خصی جانور کی قربانی کرنا ثابت ہے، عن جابر رضي اللہ عنہ قال: ذبح النبي
صلی اللہ علیہ وسلم یوم الذبح کبشین أملحین موجوئین (مشکاة) وفيالہدایة:
ویجوز أن یضحی بالجماء والخصي لأن لحمہا أطیب) خصی جانور نہ ہونے پر مادہ
جانور کی قربانی افضل ہے، افضلیت حاصل کرنے کے لیے قربانی کے موقع پر جانور
کو خصی نہ کرنا چاہیے کیوں کہ خصی جانور کی قربانی افضل وبہتر اس لیے ہے
کہ وہ فربہ اور اس کا گوشت عمدہ ہوتا ہے اور یہ دونوں چیزیں اس وقت حاصل
ہوسکتی ہیں جب کہ جانور کو پہلے سے ہی خصی کردیا جائے، بعض لوگوں کا خصی
کرنے کو جانور پر مطلقا ظلم قرار دینا درست نہیں، خصی کرنا جانور پر اس وقت
ظلم ہوگا جب کہ عمل خصاء سے مقصد لہو ولعب ہو، فقہاء نے اس کو ناجائز لکھا
ہے، لیکن اگر جانور کو خصی کرنے سے مقصد منفعت ہو تو یہ جائز ہے اور جب آں
حضرتﷺ کے عمل سے خصی جانور کی قربانی کرنا ثابت ہوگیا تو اب ایک موٴمن کو اس میں کیا تردد ہونا چاہیے۔
حدیث # 2
عَنْ عَائِشَةَ ،وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا
أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ ، اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ سَمِينَيْنِ
أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوءَيْنِ ، فَذَبَحَ أَحَدَهُمَا عَنْ
أُمَّتِهِ لِمَنْ شَهِدَ لِلَّهِ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لَهُ
بِالْبَلَاغِ ، وَذَبَحَ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَعَنْ آلِ مُحَمَّدٍ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " .
حضرت عائشہ رضی الله عنہا اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو بڑے موٹے سینگ دار، سفید وسیاہ رنگ کے خصی مینڈھے خریدتے ۔ ان میں سے ایک اپنی امت کے ان افراد کی طرف سے ذبح کرتے جو اللہ کے ایک ہونے اور رسول اللہﷺ کے احکامات پہنچانے کی شہادت دیں اور دوسری اپنی طرف سے اور اپنی آل کی طرف سے ذبح کرتے.
تخريج الحديث
|
حدیث # 3
عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، قَالَ : "
ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ
أَمْلَحَيْنِ مَوْجِيَّيْنِ خَصِيَّيْنِ ، فَقَالَ : أَحَدُهُمَا عَمَّنْ
شَهِدَ بِالتَّوْحِيدِ ، وَلَهُ بِالْبَلَاغِ ، وَالْآخَرُ عَنْهُ وَعَنْ
أَهْلِ بَيْتِهِ ، قَالَ : فَكَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَفَانَا " .
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے
دو خوبصورت اور خصی مینڈھوں کی قربانی فرمائی اور فرمایا ان میں سے ایک تو
ہر شخص کی جانب سے تھا جو اللہ کی وحدانیت اور نبی کریم ﷺ کی تبلیغ رسالت کی گواہی دیتا ہو اور دوسرا اپنی اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے تھا روای کہتے ہیں کہ اس طرح نبی کریم ﷺ نے ہماری کفایت فرمائی ۔
حدیث # 4
عَنْ بِلَالِ بْنِ أَبِي الدَّرْدَاءِ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ : " ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ جَذَعَيْنِ مُوجِيَيْنِ " .
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ، رقم الحديث: 21170(21205]
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ایک مرتبہ چھ ماہ کے دو خصی مینڈھوں کی قربانی فرمائی ۔
تخريج الحديث
|
کیا خصی جانور عیب دار ہوتا ہے؟
بکرے کا خصی ہونا عیب نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس کی قیمت دُوسرے بکرے کی نسبت زیادہ ہوتی ہے، اور خصی جانور کی قربانی آنحضرت ﷺ نے کی ہے، جس سے جانور خصی کرانے کا جواز اور اس قسم کے جانور کی قربانی کرنے کا جواز دونوں معلوم ہوجاتے ہیں۔
خصی جانور کی قربانی کی علمی بحث
س…
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ عظام اس مسئلے میں کہ مندرجہ ذیل عبارت میں حدیث
کی دلیل سے بہائم کو خصی کرنا سختی سے ممنوع قرار دیا ہے، جبکہ آپ نے شامی
کے حوالے سے قربانی کے لئے خصی جانور نہ صرف جائز بلکہ افضل قرار دیا ہے۔
”جانور کو خصی بنانا منع ہے“
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ صَبْرِ الرُّوحِ ، وَعَنْ إِخْصَاءِ الْبَهَائِمِ نَهْيًا شَدِيدًا .
[كشف الأستار » كِتَابُ الْجِهَادِ » بَابُ النَّهْيِ عَنْ إِخْصَاءِ الْبَهَائِمِ ... رقم الحديث: 1595]
[كشف الأستار » كِتَابُ الْجِهَادِ » بَابُ النَّهْيِ عَنْ إِخْصَاءِ الْبَهَائِمِ ... رقم الحديث: 1595]
ترجمہ:… ”حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے کسی ذی رُوح کو باندھ کر تیراندازی کرنے سے منع فرمایا ہے، اور آپﷺ نے جانوروں کو خصی بنانے سے بڑی سختی سے منع فرمایا ہے۔“
اس حدیث کو بزاز نے روایت کیا ہے اور اس کے تمام راوی ”صحیح بخاری“ یا ”صحیح مسلم“ کے راوی ہیں۔
(مجمع الزوائد جز:۵ ص:۲۶۵ (5/268) ، اس حدیث کی سند صحیح ہے، نیل الاوطار جز:۸ ص:۷۳ (8/249) ، فتح الغفار - الرباعي : 1888/4 غاية المرام - الألباني: 482 الأحكام الصغرى-عبد الحق الإشبيلي: 782)
برائے مہربانی مسئولہ صورتِ حال کی وضاحت سندِ صحاحِ ستہ سے فرماکر ثوابِ دارین حاصل کریں۔
ج… متعدّد احادیث میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خصی مینڈھوں کی قربانی کی، ان احادیث کا حوالہ مندرجہ ذیل ہے:
۱:… حدیثِ جابر رضی اللہ عنہ۔ (ابوداوٴد ج:۲ ص:۳۰، مجمع الزوائد ج:۴ ص:۲۲)
۲:… حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا۔ (ابنِ ماجہ ص:۲۲۵)
۳:… حدیثِ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ۔ (ابنِ ماجہ)
۴:… حدیثِ ابی رافع رضی اللہ عنہ۔(مسندِ احمد ج:۶ ص:۸، مجمع الزوائد ج:۴ ص:۲۱)
۵:… حدیثِ ابی الدرداء رضی اللہ عنہ۔ (مسندِ احمد ج:۶ ص:۱۹۶)
ان احادیث کی بنا پر تمام ائمہ اس پر متفق ہیں کہ خصی جانور کی
قربانی دُرست ہے، حافظ موفق الدین ابنِ قدامہ المقدسی الحنبلی (متوفی ۶۳۰ھ)
”المغنی“ میں لکھتے ہیں:
”ويجزئ الخصي ; لأن النبي صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين موجوءين والوجأ رض الخصيتين ، وما قطعت خصيتاه أو شلتا ، فهو كالموجوء ; لأنه في معناه ; ولأن الخصاء ذهاب عضو غير مستطاب ، يطيب اللحم بذهابه ، ويكثر ويسمن . قال الشعبي : ما زاد في لحمه وشحمه أكثر مما ذهب منه . وبهذا قال الحسن وعطاء والشعبي والنخعي ومالك والشافعي وأبو ثور ، وأصحاب الرأي . ولا نعلم فيه مخالفا .“ (المغنی مع الشرح الکبیر » كتاب الأضاحي » مسألة يجتنب في الضحايا العوراء البين عورها » فصل يجزئ الخصي في الأضحية ج:۱۱ ص:۱۰۲)
ترجمہ:… ”اور خصی جانور کی قربانی جائز ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے
خصی مینڈھوں کی قربانی کی تھی، اور جانور کے خصی ہونے سے ناپسندیدہ عضو
جاتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے گوشت عمدہ ہوجاتا ہے اور جانور موٹا اور فربہ
ہوجاتا ہے۔ امام شعبی رح فرماتے: خصی جانور کا جو عضو جاتا رہا اس سے زیادہ
اس کے گوشت اور چربی میں اضافہ ہوگیا۔ امام حسن بصری رح ، عطاء رح ، شعبی
رح ، مالک رح ، شافعی رح ، ابوثور رح اور اصحاب الرائے بھی اسی کے قائل
ہیں، اور اس مسئلے پر ہمیں کسی مخالف کا علم نہیں۔“
جب آنحضرت ﷺ سے
خصی جانور کی قربانی ثابت ہے اور تمام ائمہٴ دین اس پر متفق ہیں، کسی کا
اس میں اختلاف نہیں، تو معلوم ہوا کہ حلال جانور کا خصی کرنا بھی جائز ہے۔
سوال میں جو حدیث ذکر کی گئی ہے وہ ان جانوروں کے بارے میں ہوگی جن کا گوشت
نہیں کھایا جاتا اور جن کی قربانی نہیں کی جاتی، ان کے خصی کرنے میں کوئی
منفعت نہیں۔
حلال جانور کے سات اعضاء کھانا مکروہ ہیں:
عَنْ مُجَاهِدٍ ، قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكْرَهُ
مِنَ الشَّاةِ سَبْعًا : الدَّمَ ، وَالْحَيَا ، وَالأُنْثَيَيْنِ ،
وَالْغُدَّةَ ، وَالذَّكَرَ ، وَالْمَثَانَةَ ، وَالْمَرَارَةَ ، وَكَانَ
يَسْتَحِبُّ مِنَ الشَّاةِ مُقَدَّمَهَا " .
ترجمہ: حضرت مجاہدرحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:’’ رسول اللہﷺ بکرے کے سات اعضاء کے (کھانے کو)پسند نہیں کرتے تھے۔ (1) خون(2) مادہ جانور کی شرمگاہ(3) خصیتین(4) حرام مغز(5) نرجانور کی پیشاب گاہ(6) مثانہ(7 )پِتَّا
اوّل الذکر کا حرام ہونا تو قرآنِ کریم (2:1373) سے ثابت ہے، بقیہ اشیاء طبعاً خبیث ہیں، اس لئے ”ویحرم علیھم الخبائث“ (7:157) کے عموم میں یہ بھی داخل ہیں۔ نیز ایک حدیث شریف میں ہے کہ آنحضرت ﷺ ان سات چیزوں کو ناپسند فرماتے تھے۔ (مصنف عبدالرزاق ج:۴ ص:۵۳۵، مراسیل ابی داوٴد ص:۱۹، سننِ کبریٰ بیہقی ج:۱۰ ص:۷، المعجم الأوسط للطبراني»رقم الحديث: 9715(9480)
الشواهد
|
قربانی کا وقت:
مسئلہ:قربانی
کاوقت دسویں ذوالحجہ کے دن طلوع فجر کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور بارھویں
ذوالحجہ کے دن غروب سے پہلے پہلے تک باقی رہتا ہے ، لیکن شہر اور بڑے دیہات
والوں کو عید کی نماز سے پہلے ذبح کرنا جائزنہیں ہے۔ حوالہ
عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ
سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ فَقَالَ
إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ مِنْ يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ ثُمَّ
نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ فَمَنْ فَعَلَ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا (بخاري بَاب
سُنَّةِ الْعِيدَيْنِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ ۸۹۸) عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ الْأَضْحَى يَوْمَانِ بَعْدَ يَوْمِ الْأَضْحَى (موطا
مالك بَاب الضَّحِيَّةِ عَمَّا فِي بَطْنِ الْمَرْأَةِ وَذِكْرِ أَيَّامِ
الْأَضْحَى ۹۲۳) عن جُنْدَبَ بْن سُفْيَانَ الْبَجَلِيَّ قَالَ شَهِدْتُ
النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ فَقَالَ
مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُعِدْ مَكَانَهَا أُخْرَى وَمَنْ
لَمْ يَذْبَحْ فَلْيَذْبَحْ (بخاري بَاب مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاةِ
أَعَادَ ۵۱۳۶)عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ ضَحَّى خَالِي أَبُو بُرْدَةَ قَبْلَ
الصَّلَاةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
تِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ عِنْدِي جَذَعَةً
مِنْ الْمَعْزِ فَقَالَ ضَحِّ بِهَا وَلَا تَصْلُحُ لِغَيْرِكَ ثُمَّ قَالَ
مَنْ ضَحَّى قَبْلَ الصَّلَاةِ فَإِنَّمَا ذَبَحَ لِنَفْسِهِ وَمَنْ
ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلَاةِ فَقَدْ تَمَّ نُسُكُهُ وَأَصَابَ
سُنَّةَالمسلمین(مسلم، بَاب وَقْتِهَا ۳۶۲۴)
مسئلہ:چھوٹے گاؤں والوں کے لئے جہاں عید کی نماز واجب نہیں ہوتی،طلوع فجر کے بعد قربانی کا ذبح کرنا جائز ہے۔ حوالہ
عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ الْأَضْحَى يَوْمَانِ بَعْدَ يَوْمِ الْأَضْحَى(موطا مالك بَاب الضَّحِيَّةِ عَمَّا فِي بَطْنِ الْمَرْأَةِ وَذِكْرِ أَيَّامِ الْأَضْحَى ۹۲۳)
مسئلہ:قربانی کے دنوں میں سے پہلے دن قربانی کا ذبح کرناافضل ہے، پھر دوسرے دن، پھر تیسرے دن۔ حوالہ
عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ،
وَابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُمْ قَالُوا:أَيَّامُ النَّحْرِ ثَلَاثَةٌ،
أَفْضَلُهَا أَوَّلُهَا (نصب الراية كِتَابُ الْأُضْحِيَّةِ ۲۱۳/۴)
مسئلہ:قربانی
کو بذات خود ذبح کرنا مستحب ہے جبکہ وہ اچھی طرح ذبح کرسکتا ہو، ہاں! اگر
وہ اچھی طرح ذبح نہ کرسکتا ہوتو بہتر یہ ہے کہ کسی سے مدد لے اس کو چاہئے
کہ ذبح کے وقت موجود رہے ۔ حوالہ
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْكَفَأَ إِلَى كَبْشَيْنِ
أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ فَذَبَحَهُمَا بِيَدِهِ (بخاري بَاب فِي
أُضْحِيَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ
أَقْرَنَيْنِ ۵۱۲۸)ٌ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ
اللَّهِ صلى الله عليه وسلم :« يَا فَاطِمَةُ قَوْمِى فَاشْهَدِى
أُضْحِيَتَكِ فَإِنَّهُ يُغْفَرُ لَكِ بِأَوَّلِ قَطْرَةٍ تَقْطُرُ مِنْ
دَمِهَا كُلُّ ذَنْبٍ عَمِلْتِيهِ وَقُولِى إِنَّ صَلاَتِى وَنُسُكِى
وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِى لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لاَ شَرِيكَ لَهُ
وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ المسلمین». قِيلَ :يَا رَسُولَ اللَّهِ
هَذَا لَكَ وَلأَهْلِ بَيْتِكَ خَاصَّةً فَأَهْلُ ذَلِكَ أَنْتُمْ أَمْ
لِلْمسلمينَ عَامَّةً قَالَ :بَلْ لِلْمسلمينَ عَامَّةً (السنن الكبري
للبيهقي باب مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ ذَبْحِ صَاحِبِ النَّسِيكَةِ نَسِيكَتَهُ
بِيَدِهِ وَجَوَازُ الاِسْتِنَابَةِ فِيهِ الخ ۱۰۵۲۴)
مسئلہ: قربانی
کا دن میں ذبح کرنا مستحب ہے، لیکن اگر اسے رات میں ذبح کرے تو کراہت کے
ساتھ جائز ہے۔ لیکن اس کراہت کی اصل وجہ یہ ہے کہ رات سکون اور راحت حاصل
کرنے کا وقت ہے اور اس کی وجہ سے راحت میں خلل پڑھ سکتا ہے اور دوسری بات
یہ ہے کہ رات کی تاریکی کی وجہ سے ذابح وغیرہ کے ہاتھ وغیرہ کٹنے کا خدشہ
ہوتا ہے، تیسری اہم بات یہ ہے کہ ذبح میں جن رگوں کا کٹنا ضروری ہوتا ہے،
رات کی تاریکی کی وجہ سے یہ ظاہر نہیں ہوپاتا کہ ذبح صحیح ہوا یانہیں؛ رگیں
مکمل کٹی یانہیں؛ لہٰذا اگریہ وجوہات نہ پائی جائیں توپھرکراہت باقی نہ
رہے گی۔ حوالہ
عن ابن عباس :أن النبي صلى الله عليه و سلم نهى أن يضحى ليلا (المعجم
الكبير أحاديث عبد الله بن العباس بن عبد المطلب بن هاشم ۱۱۴۵۸) وَأَمَّا
مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ الذَّكَاةِ وَمَا يُكْرَهُ مِنْهَا ( فَمِنْهَا )
أَنَّ الْمُسْتَحَبَّ أَنْ يَكُونَ الذَّبْحُ بِالنَّهَارِ وَيُكْرَهُ
بِاللَّيْلِ وَالْأَصْلُ فِيهِ مَا رُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ { أَنَّهُ نَهَى عَنْ الْأَضْحَى لَيْلًا
وَعَنْ الْحَصَادِ لَيْلًا } وَهُوَ كَرَاهَةُ تَنْزِيهٍ وَمَعْنَى
الْكَرَاهَةِ يَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ لِوُجُوهٍ : أَحَدُهَا أَنَّ
اللَّيْلَ وَقْتُ أَمْنٍ وَسُكُونٍ وَرَاحَةٍ فَإِيصَالُ الْأَلَمِ فِي
وَقْتِ الرَّاحَةِ يَكُونُ أَشَدَّ ، وَالثَّانِي أَنَّهُ لَا يَأْمَنُ
مِنْ أَنْ يُخْطِئَ فَيَقْطَعُ يَدَهُ وَلِهَذَا كُرِهَ الْحَصَادُ
بِاللَّيْلِ ، وَالثَّالِثُ أَنَّ الْعُرُوقَ الْمَشْرُوطَةَ فِي الذَّبْحِ
لَا تَتَبَيَّنُ فِي اللَّيْلِ فَرُبَّمَا لَا يَسْتَوْفِي قَطْعَهَا
(بدائع الصنائع فصل في بَيَان شَرْطِ حِلِّ الْأَكْلِ فِي الْحَيَوَانِ
الْمَأْكُولِ: ۲۳۶/۱۰)۔
مسئلہ:اگر کسی وجہ سے عید کی نماز چھوٹ جائے تو زوال کے بعد قربانی کے جانور کا ذبح کرنا جائز ہے۔ حوالہ
عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ الْأَضْحَى يَوْمَانِ بَعْدَ يَوْمِ الْأَضْحَى(موطا مالك بَاب الضَّحِيَّةِ عَمَّا فِي بَطْنِ الْمَرْأَةِ وَذِكْرِ أَيَّامِ الْأَضْحَى ۹۲۳)
مسئلہ:اگر شہر میں کئی جگہ عید کی نماز کی جماعتیں ہوتی ہو ں تو شہر میں پڑھی جانے والی پہلی نماز کے بعد ذبح کرنا جائز ہے۔ حوالہ
عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ ضَحَّى خَالِي أَبُو بُرْدَةَ قَبْلَ الصَّلَاةِ
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ شَاةُ
لَحْمٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ عِنْدِي جَذَعَةً مِنْ الْمَعْزِ
فَقَالَ ضَحِّ بِهَا وَلَا تَصْلُحُ لِغَيْرِكَ ثُمَّ قَالَ مَنْ ضَحَّى
قَبْلَ الصَّلَاةِ فَإِنَّمَا ذَبَحَ لِنَفْسِهِ وَمَنْ ذَبَحَ بَعْدَ
الصَّلَاةِ فَقَدْ تَمَّ نُسُكُهُ وَأَصَابَ سُنَّةَالمسلمین(مسلم، بَاب
وَقْتِهَا ۳۶۲۴) ۔
قربانی کا وقت شہر والوں کے لئے نماز عید ادا کرنے کے بعد اور دیہات والوں کے لیے (جن پر نماز جمعہ فرض نہیں ہے )صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے لیکن سورج طلوع ہونے کے بعد کرنابہتر ہے۔
(فتاویٰ عالمگیری ج5 ص364، فتاویٰ شامی ج9 ص528، موطا امام محمدص282باب الرجل یذبح اضحیتہ )
أَنَّ عُوَيْمِرَ بْنَ أَشْقَرَ ، "
ذَبَحَ أُضْحِيَتَهُ قَبْلَ أَنْ يَغْدُوَ يَوْمَ الأَضْحَى ، وَأَنَّهُ
ذَكَرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ،
فَأَمَرَهُ أَنْ يَعُودَ بِأُضْحِيَةٍ أُخْرَى۔
[موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني » كِتَابُ الضَّحَايَا وَمَا يُجْزِئُ مِنْهَا » بَابُ : الرَّجُلِ يَذْبَحُ أُضْحِيَتَهُ قَبْلَ أَنْ ... رقم الحديث: 576]
[موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني » كِتَابُ الضَّحَايَا وَمَا يُجْزِئُ مِنْهَا » بَابُ : الرَّجُلِ يَذْبَحُ أُضْحِيَتَهُ قَبْلَ أَنْ ... رقم الحديث: 576]
تخريج الحديث
م | طرف الحديث | الصحابي | اسم الكتاب | أفق | العزو | المصنف | سنة الوفاة |
1 | أعد أضحيتك | عويمر بن أشقر | سنن ابن ماجه | 3152 | 3153 | ابن ماجة القزويني | 275 |
2 | أمره أن يعود بضحية أخرى | عويمر بن أشقر | موطأ مالك رواية يحيى الليثي | 1013 | 1045 | مالك بن أنس | 179 |
3 | أمره أن يعيد أضحيته | عويمر بن أشقر | مسند أحمد بن حنبل | 15447 | 15335 | أحمد بن حنبل | 241 |
4 | أمره رسول الله أن يعود لأضحيته | عويمر بن أشقر | مسند أحمد بن حنبل | 18607 | 18521 | أحمد بن حنبل | 241 |
5 | أمره رسول الله أن يعيد أضحية أخرى | عويمر بن أشقر | صحيح ابن حبان | 6038 | 13 : 233 | أبو حاتم بن حبان | 354 |
6 | أمره أن يعود لضحية أخرى | عويمر بن أشقر | السنن الكبرى للبيهقي | 17504 | 9 : 261 | البيهقي | 458 |
7 | ذبح ضحيته قبل أن يغدو يوم الأضحى وأنه ذكر ذلك لرسول الله فأمره أن يعود بضحية أخرى | عويمر بن أشقر | معرفة السنن والآثار للبيهقي | 4900 | 5628 | البيهقي | 458 |
8 | ذبح أضحيته قبل أن يغدو يوم الأضحى وأنه ذكر للنبي بعد أن انصرف فزعم أنه أمره أن يعود بأضحيته | عويمر بن أشقر | معرفة السنن والآثار للبيهقي | 4902 | 5630 | البيهقي | 458 |
9 | ذبح أضحيته قبل أن يغدو يوم الأضحى وأنه ذكر ذلك لرسول الله فأمره أن يعود بأضحية أخرى | عويمر بن أشقر | موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني | 576 | 636 | مالك بن أنس | 179 |
10 | ذبح ضحيته قبل أن يغدو يوم الأضحى وأنه ذكر ذلك لرسول الله فأمره أن يعود بضحية أخرى | عويمر بن أشقر | موطأ مالك برواية أبي مصعب الزهري | 1203 | 2134 | مالك بن أنس | 179 |
11 | يعود بضحية أخرى | عويمر بن أشقر | السنن المأثورة رواية المزني | 535 | 571 | الشافعي | 204 |
12 | يعود بأضحية | عويمر بن أشقر | السنن المأثورة رواية المزني | 536 | 572 | الشافعي | 204 |
13 | ذبح أضحيته فصنع صحفة منها ثم أتى بها النبي فقال ما هذا قال من أضحيتي فقال متى ذبحتها قال قبل أن أصلي فأمره أن يعيد | عويمر بن أشقر | المعجم الأوسط للطبراني | 137 | 133 | سليمان بن أحمد الطبراني | 360 |
14 | يعيد مرة أخرى بأضحيته | عويمر بن أشقر | معجم الصحابة لابن قانع | 1195 | 1341 | ابن قانع البغدادي | 351 |
15 | ذبح قبل أن يصلي النبي يوم الأضحى فأمره أن يعيد | عويمر بن أشقر | معجم الشيوخ الكبير للذهبي | 195 | --- | شمس الدين الذهبي | 748 |
16 | ذبح أضحيته قبل أن يغدو يوم الأضحى وأنه ذكر ذلك لرسول الله فأمره النبي أن يعيد أضحية أخرى | عويمر بن أشقر | الرابع من الفوائد المنتقاة لابن أبي الفوارس | 99 | --- | أبو الفتح بن أبي الفوارس | 412 |
17 | ذبح قبل أن يغدو النبي إلى المصلى وأنه ذكر ذلك للنبي بعد أن انصرف فأمره بضحية أخرى | عويمر بن أشقر | الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم | 1923 | 2171 | ابن أبي عاصم | 287 |
18 | ذبح ضحية قبل أن يغدو | عويمر بن أشقر | الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم | 1924 | 2172 | ابن أبي عاصم | 287 |
19 | ذبح قبل أن يصلي النبي فأمره أن يعيد | عويمر بن أشقر | معرفة الصحابة لأبي نعيم | 4838 | 5315 | أبو نعيم الأصبهاني | 430 |
20 | ذبح قبل الصلاة يوم العيد فأمره النبي أن يعيد | عويمر بن أشقر | تاريخ دمشق لابن عساكر | 10999 | --- | ابن عساكر الدمشقي | 571 |
21 | ذبح قبل أن يصلي النبي يوم الأضحى فأمره أن يعيد | عويمر بن أشقر | تهذيب الكمال للمزي | 2582 | --- | يوسف المزي | 742 |
22 | أنه ذبح قبل أن يصلي فأمره النبي أن يعيد | عويمر بن أشقر | السفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة | 800 | --- | ابن أبي خيثمة | 279 |